سفرنامہ افریقہ- ۳

۲۹ ستمبر ۱۹۸۹ کو طرابلس سے پی آئی اے کی فلائٹ۷۱۴  کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ راستہ میں جہاز ایک بار نیچے اوپر ہونے لگا۔ ہوائی جہاز کے ساتھ جب یہ صورت پیش آتی ہے تو اکثر وہ دو ہزار فٹ تک نیچے چلا جاتا ہے۔ مگر بلندی پر اڑتے ہوئے مسافر کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ۱۰- ۲۰فٹ نیچے اوپر ہورہا ہے ۔ ہوائی جہاز جب ۳۰ ہزارفٹ کی اونچائی پر پہنچ جاتا ہے تو وہ اسی طرح ہلکا ہو جاتا ہے جیسے کوئی آدمی پانی پر تیرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتا ہے ۔ اس ہلکے پن کی وجہ سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ جہاز دو ہزارفٹ کے بقدر نیچے اوپر ہو رہا ہے۔

 جہاز جب اس طرح ہلتا ہے اور جھٹکے کے ساتھ نیچے اوپر ہوتا ہے تو عام مسافر اس کو دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں مگر یہ کوئی خطرہ کی بات نہیں۔ کم از کم ہوا بازی کی تاریخ میں اب تک صرف اس کی وجہ سےکوئی جہاز حادثہ کا شکار نہیں ہوا۔

واپسی کے سفر میں ہماری پہلی منزل دمشق تھی۔ جہازد مشق کے ہوائی اڈہ پر اتر اتو اس "قدیم ترین" شہر کی نسبت سے بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں۔

"دمشق" کے نام کے ساتھ اتنی زیادہ یادیں وابستہ ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے بعد اصحابِ رسول کی سب سے زیادہ تعداد جہاں مدفون ہے وہ شام، خاص طور پر دمشق ہے۔ اس کے علاوہ علماء اسلام اور مختلف قسم کی اسلامی شخصیتوں کی بہت بڑی تعدادیہاں مدفون ہے۔

دمشق نے اپنی تاریخ کے طویل دور میں بڑے عجیب عجیب منظر دیکھے ہیں۔ قدیم عہد کو چھوڑ کر دیکھاجائے تو حضرت حسین کا سرکاٹ کر اسی دمشق میں یزید کے پاس لایا گیا ۔ فتح اسپین (۷۱۱ھ) کے چار سال بعد موسیٰ بن نصیر دمشق واپس آئے تو ان کے ساتھ تقریباً ۴۰۰ کی تعداد میں اسپینی شہزادے تھے جن کے سروں پر تاج تھے اور کمر میں سونے کے پٹکے بندھے ہوئے تھے۔ دمشق اس قدیم تقریباً پانچ سوسالہ مسلم عہد کی یاد دلاتا ہے جب کہ دمشق سے لے کر فرانس کی سرحد تک عثمانی ترکوں کی حکومت قائم تھی ، وغیرہ وغیرہ۔

 جدید فلسطینی تحریک کے ایک لیڈر خلیل الوزیر تھے۔ ان کو عام طور پر ابو جہاد کہا جاتا تھا۔ وہ فلسطین میں پیدا ہوئے ۔ آخری دنوں میں وہ پی ایل او کے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے تیونس میں مقیم تھے ۔ ان کی تدفین دمشق میں ہوئی۔ ابو جہاد اپنی خطرناک سرگرمیوں کی وجہ سے اسرائیل کے لیے    دردِسر بنے ہوئے تھے۔ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی گوریلا جنگ کے کمانڈر تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ مارچ ۱۹۷۸ میں انہیں کے منصوبہ کے مطابق ایک اسرائیلی سڑک سے ایک بس کا اغوا کیا گیا تھا اور اس کے ۳۵ یہودی مسافر قتل کردیےگئے تھے۔

اس طرح کے مختلف واقعات کی بنا پر اسرائیل کے حکمران ابو جہاد سے بگڑے ہوئے تھے۔ آخر کار ایک نہایت منظم منصوبہ کے تحت ۱۶  اپریل ۱۹۸۸ کو انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس خفیہ منصوبہ کی تفصیل امریکی ہفتہ وار ٹائم ۲۵ اپریل ۱۹۸۸ اور ۲ مئی ۱۹۸۸ میں شائع ہوئی ہے۔ ٹائم (۲ مئی ۱۹۸۸) کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک ممبر یوسی سرید (Yoshi Sarid) نے کہا کہ ایک کے بعد ایک ابو جہاد ختم کیے جاسکتے ہیں مگریہ چیز فلسطینی مسئلہ کوختم نہیں کر سکتی :

Abu after Abu can be liquidated. But this will not liquidate the Palestinian problem (p.17).

ہندستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے جون ۱۹۸۸ کے پہلے ہفتہ میں شام کا دورہ کیا تھا۔ دمشق  میں انھوں نے ۴ جون ۱۹۸۸ کو ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے دمشق کی خصوصیت بتاتے ہوئے کہا کہ محمد بن قاسم یہاں  سے روانہ ہو کر ہندستان پہنچے تا کہ وہاں اسلام کے پیغام کو پھیلائیں :

Mohammad bin Qasim set sail from here to India to spread the message of Islam.

را جیو گاندھی کے اس بیان پر ہندستان کے کچھ فرقہ پرستوں نے شدید رد ِعمل کا اظہار کیا تھا دہلی کے انگریزی ہفت روزہ آرگنائزر ( ۱۹ جون ۱۹۸۸ )نے لکھا تھا کہ راجیو گاندھی اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے    ایسا کہہ رہے ہیں۔ ورنہ محمد بن قاسم ہندستان میں اسلام کی اشاعت کے لیے    نہیں آیا ۔ وہ قتل اور لوٹ اور زناکاری کے لیے    یہاں آیا تھا ( صفحہ ۱۶) یہی بات ہندو مہا سبھا کےصدر جَینت پاٹل نے اپنے ایک مراسلہ میں کہی جو ٹائمس آف انڈیا (۲۰ جون ۱۹۸۸) میں چھپا تھا۔

 مسٹر جینت پاٹل نے اپنے دعوے کی تائید میں مورخ بلاذری کا حوالہ دیا تھا۔ مگر یہ حوالہ سراسر غلط ہے۔ احمد بن یحیی البلاذری (م  ۸۹۲ ء) کی کتاب فتوح البلدان میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں۔ بلکہ اس کتاب میں محمد بن القاسم کی تصویر اس سے یکسر مختلف نظر آتی ہے جو مذکورہ مضامین میں اس کی بتائی گئی تھی۔

عربوں نے سندھ کو آٹھویں صدی عیسوی ( ۷۱۲ ء) میں فتح کیا تھا۔ اور البلاذری کا زمانہ نویں صدی عیسوی ہے ۔ اس طرح وہ ایک قریب العہد موٴرخ ہے۔ البلاذری نے جو کچھ لکھا ہے، اس میں ایک بات یہ ہے کہ دمشق میں اندرونی سازشوں کی وجہ سے نوجوان محمد بن القاسم کو دمشق واپس بلا لیا گیا جہاں اس کوقید کر دیا گیا۔ تاہم سندھ میں وہ نہایت نیک نام تھا۔ چنانچہ سندھ کے مقامی باشندوں کے ردِ عمل کا ذکر کرتے ہوئے البلاذری نے لکھا ہے کہ ان کو جب اس کی خبر ملی تو ہندستان کے لوگ روئے اور انھوں نے کیرج کے مقام پر محمد بن القاسم کا بت بنا یا  (فبکی أهل الهند وصوروه بالكيرج، صفحہ ۴۴۶)

محمد بن القاسم کا کر دار اگر وہ ہوتا جو ہندومہاسبھا کے صدر یا آرگنائزر کے مضمون نگار بتا رہے ہیں تو یہ ناممکن تھا کہ اہل سندھ کے درمیان اس کو یہ محبوبیت اور مقبولیت حاصل ہو کہ وہ اس کے سندھ سے جانے کے بعد اس کا ماتم کریں، حتی کہ اس کا بت بنائیں اور اس کے سامنےغیر معمولی عقیدت و احترام کا اظہار کریں۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۷۹ - ۱۹۰۳) نے ۱۹۵۹ کے آخر میں بعض عرب ممالک کا دورہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں وہ شام (دمشق) میں بھی چند دن ٹھہرے۔ اس سفر کی روداد مولانا موصوف کے رفیقِ سفر مولانا محمد عاصم صاحب نے مرتب کی ہے جو "سفرنامہ ارض القرآن" کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ ان کا ایک اقتباس یہ ہے :

"مولانا ان کے سوالات کا اطمینان اور تفصیل سے جواب دیتے رہے۔ ہندستان کے مسلمانوں کے متعلق مولانا نے بتایا کہ ان کی حالت ویسی ہی ہے جیسے اسرائیل میں عربوں کی ۔ یہ مختصر جواب نہایت موثر رہا۔ اس مثال کے بغیر اگر ہندستان میں مسلمانوں کی حالت کے متعلق کوئی مفصل تقریر بھی کی جاتی تو شاید وہ اتنی موٴثر نہ ہوتی " صفحہ ۳۳

سید ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ جواب غیر ذمہ دارانہ حد تک غلط ہے۔ مزید غیر ذمہ داری کی بات مولانا موصوف کے رفیق کا یہ جملہ ہے کہ "یہ جواب نہایت موثر رہا "گویا مسئلہ سنجیدہ حقیقت بیانی کا نہیں بلکہ مجلسی اثر آفرینی کا ہے ۔ کیسی عجیب ہے یہ بات۔

جواب کے اس انداز کو میں حد درجہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی سمجھتا ہوں ۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بعض مسائل در پیش ہیں۔ مگر وہ کونسا ملک ہے جہاں کسی نہ کسی قسم کے مسائل درپیش نہ ہوں۔ پھر ہندستان ہی کو ان مسائل کے لیے    مطعون کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔

مارچ  ۱۹۸۴ کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں ایک عرب ملک میں تھا۔ ایک عرب شیخ نے اپنے مکان پر دعوت کا اہتمام کیا ۔ بہت سے لوگ مدعو تھے۔ یہاں میری ملاقات ہندستان کے ایک اسلام پسند رہنما سے ہوئی۔ ایک عرب شیخ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں تو مسلمانوں کومسجد کے اندر بھی سجدہ کرنے کی اجازت نہیں۔

میں نے آہستہ سے پوچھا : حضرت ، آپ کس ہندستان کی بات کر رہے ہیں۔ وہی ہندستان جہاں میں رہتا ہوں یا کوئی اور ۔ انھوں نے فوراً  صفدر جنگ (دہلی) کی مسجد کا نام لیا۔ میں نے کہا، پھر مطلق اند از میں ممانعت ِسجدہ کی بات کیوں کر رہے ہیں۔ آپ کو کہنا چاہیے   کہ ہندستان میں لاکھوں مسجدیں ہیں جن میں مسلمانوں کو نماز کی آزادی ہے۔ البتہ ایک مسجد (صفدر جنگ)  میں انھیں یہ آزادی حاصل نہیں جوبہت پہلے سے آثار قدیمہ کے ماتحت ہے۔

دمشق سے جہاز پر ۱۸۰ مسافر سوار ہوئے ۔ یہ سب" زیارت" کے لوگ تھے ۔ وہ پاکستان سے دمشق اور بغداد برائے زیارت گئے۔ وہاں حضرت زینب ، حضرت حسین وغیرہ کے مزارات ہیں۔اب وہ پاکستان واپس جا رہے تھے ۔

میرے پاس کی سیٹ پر ایک صاحب آکر بیٹھ گئے۔ ان کا نام محمد عباس کاظمی تھا۔ وہ لاہور میں کتابوں کی دکان کرتے ہیں۔ انھوں نے بتا یا کہ وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۷ میں وہ لاہور چلے آئے۔ ان کے بال سفید ہو چکے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے دونوں زمانوں کو دیکھا ہے۔ یہ بتائیے کہ ۱۹۴۷  سے پہلے والی زندگی میں اور موجودہ پاکستان کی زندگی میں کیا فرق ہے۔ انھوں نےدر د مندانہ لہجہ میں کہا کہ بس یہ فرق ہے کہ پہلے ملک میں ہندو مسلم جھگڑے ہوا کرتے تھے ، اب ہمارےیہاں شیعہ سنّی جھگڑے ہوتے ہیں۔

"زیارت " سے لوٹنے والے یہ تمام لوگ شیعہ تھے۔ ان میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔ میں نےمحمد عباس کاظمی صاحب سے پوچھا کہ اس سفر میں فی کس کتنا خرچ آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فی کس ۱۶  ہزار روپیہ۔ ۱۸۰ آدمی ہمارے جہاز میں دمشق سے سوار ہوئے۔ مگر اس سے زیادہ تعداد ابھی دمشق اور بغداد میں موجود تھی۔ یہ لوگ جہاز کے اندر بار بار نعرہ لگا رہے تھے –––––  نعرہ ٔتکبیر،نعرہ ٔرسالت، نعرۂ حیدری ۔ نعرہ دینے والا پہلے دونوں الفاظ نسبتاً د ھیرے بولتا تھا۔ مگر جب وہ "نعرہ ٴحیدری" بولتا تو اس کی آوازغیرمعمولی طور پر تیز ہو جاتی ۔

جہاز کے اندر پی آئی اے کی فلائٹ میگزین "مسافر" ستمبر -  اکتوبر ۱۹۸۹ مطالعہ کے لیے    موجود تھی۔ اس کے انگریزی حصہ میں پی آئی اے کے بارے   میں ایک مضمون تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پی آئی اے ۱۹۵۴ میں قائم ہوئی۔ اس دوران اس نے کیا ترقی کی اور آئندہ اس کے کیا منصوبے ہیں، اس ذیل میں یہ فقرہ درج تھا کہ جمہوریت کے احیاء کی وجہ سے ملک مسکراہٹوں سے بھرا ہوا ہے اور پی آئی اے بھی ترقیاتی پرواز کے لیے    اپنے بازو پھیلا رہی ہے:

Since the revival of democracy, the country is full of smiles, and PIA too is flexing its wings (p. 29).

دوسری طرف جہاز کے اندر اردو اخبارات تھے۔ ان میں اپوزیشن لیڈروں کے بیانات ملک کے بارے   میں اس سے مختلف کہانی سنا رہے تھے  ––––– موجودہ دنیا میں کوئی زندگی کبھی آئیڈیل نہیں ہوتی ۔ کوئی شخص زندگی کو مثبت رخ سے دیکھتا ہے تو اس کو زندگی امکانات سے بھری ہوئی نظر آتی ہے۔ دوسرا شخص اس کو منفی رخ سے دیکھتا ہے تو اس کو نظر آتا ہے کہ زندگی مصائب اور مشکلات کے سوا اور کچھ نہیں۔

۳۰ ستمبر ۱۹۸۹ کی صبح کو کراچی پہنچا۔ میں نے دہلی سے یہاں کا ویزا لے لیا تھا۔ چنانچہ کراچی میں ۱۲ گھنٹے قیام رہا۔ کراچی میں میرا قیام "فضلی سنز لمیٹڈ" کے یہاں تھا۔ وہ لوگ گلشن اقبال(D-123) میں رہتے ہیں۔

جہاز سے اتر کر ایر پورٹ کی بس پر سوار ہو اتو ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔ بس میں زیادہ تر مسافر پاکستان کراچی کے تھے ۔ زیادہ عمر کے ایک بزرگ اندر داخل ہو کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ ایک شخص نے ان کو دیکھ لیا اور اپنی طرف بلاتے ہوئے کہا کہ آئیے ، یہاں بیٹھ جائیے۔وہ بدستور کھڑے رہے اور کہا : میاں ، بیٹھنے کا وقت کہاں ، اب تو لیٹنے کا وقت ہے۔

ان کی زبان سے یہ فقرہ سن کر دل تڑپ اٹھا۔ مجھے اپنا معاملہ یاد آ گیا۔ میری عمر اب ۶۵ سال ہو چکی ہے۔ بڑھاپا اپنی تمام علامتوں کے ساتھ آنا شروع ہو گیا ہے۔ اب وہ وقت قریب آگیا ہے جب کہ دنیا کی سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے مجھے قبر کے تختہ پر لٹا دیا جائے۔

یہ دن ہر شخص کے لیے    مقدر ہے ۔ ہر شخص کے ساتھ ایسا ہونے والا ہے کہ اس کی موت آجائے۔ اس کو" اپنی دنیا " سے نکال کر "خدا کی دنیا "میں داخل کر دیا جائے ۔ کتنا سنگین لمحہ ہرشخص پر آنے والا ہے۔ مگر ہر شخص کتنازیادہ اس سے غافل پڑا ہوا ہے۔

ڈاکٹر خالد انعام اللہ صاحب بھی اسی جہاز سے اترے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اکثرسفر میں رہتے ہیں اور بے شمار کا نفرنسوں میں شرکت کی ہے۔ ان کے ساتھ ان کے محترم والد ڈاکٹر انعام اللہ خاں(۷۵سال )کے مکان پر آیا۔ یہاں تقریباً آدھ گھنٹہ قیام رہا۔

ڈاکٹر انعام اللہ خان صاحب موٴتمر العالم الاسلامی کے سکرٹری جنرل ہیں ۔ اس کو مولانا محمدعلی وغیرہ نے قائم کیا تھا۔ ۱۹۲۴ میں جب خلافت تحریک سیاسی حیثیت سے ختم ہوگئی تو مولانا محمد علی وغیرہ کے سامنے سوال آیا کہ" اب کیا "۔ حکومتی سطح پر خلافت کا نظام قائم کرنے کے مواقع نہیں تھے ، چنانچہ انھوں نے " ادارہ "کی سطح پر اس کام کو جاری رکھنے کے لیے    ۱۹۲۶ میں مذکورہ موٴتمرقائم کی۔ اس کے پہلے صدر مفتیٔ اعظم فلسطین اور نائب صدر علامہ اقبال تھے۔

 ڈاکٹر انعام اللہ خاں صاحب نے اپنے والد حاجی عبد الکریم خان غازیپوری (وفات ۱۹۶۴) کے بارے   میں بتایا کہ وہ نہایت نیک نفس آدمی تھے۔ اپنے ملازموں کو جاہل دیکھنا انھیں گوارا نہ تھا ۔ چنانچہ وہ خود انہیں پڑھایا کرتے تھے ۔ اور کہا کرتے تھے کہ لوگوں کو کھلانے پلانے میں کوتا ہی نہ کرو، اور جو کچھ تمہارے گھر میں موجود ہے بس وہی پیش کردو ، کیوں کہ جو تمہارے کھانےکے قابل ہے ، وہ تمہارے مہمان کے کھانے کے قابل بھی ہے۔

حافظ عبد الکریم صاحب کا ایک خاص نظریہ تھا جس کو وہ " تطہیر ِفکر،اوّل" کے لفظوں میں بیان کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عمل ہمیشہ فکر کے تحت ہوتا ہے۔ فکر اگر صحیح نہ ہوگا تو عمل بھی صحیح نہ ہوگا ۔ میں نے کہا کہ یہی جڑ کی بات ہے ۔ موجودہ زمانے   میں ہماری تمام تحریکیں ناکام ہوگئیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ ان کے رہنماؤں نے تطہیر ِفکر کا اوّل کام کیے بغیر عملی اقدام کے ثانوی کام سے اپنے سفر کا آغاز کرنا چاہا۔ ایسی تحریک کے لیے    موجودہ اسباب کی دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں –––––  خلافت تحریک کی ناکامی کا سبب بھی یہی ہے۔

"پاکستان ابھی تک پاکستان نہ بن سکا"  ایک "اسلام پسند" پاکستانی نے کہا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان اس لیے    بنا تھا کہ وہاں اسلامی نظام قائم کیا جائے، مگر ابھی تک پاکستان میں اسلامی نظام قائم نہ کیا جاسکا۔ اگر آپ پاکستان جائیں یا پاکستان کے اخبارات پڑھیں تو یہ بات آپ کو بے شمار لوگوں کی زبان سے سنائی دے گی۔

وہ کون ہے جس نے نصف صدی گزرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان کو پاکستان بننے نہیں دیا ۔ اس کے جواب میں لوگ مختلف طاقتوں یا شخصیتوں کا نام لیں گے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس المیہ کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے وجود میں آتے ہی "مطالبہ ٔنظام اسلامی" کا جھنڈا لے کر کھڑے ہو گئے۔

۱۹۴۷ میں جو چیز وجود میں آئی وہ صرف ایک جغرافی خطہ تھا۔ اس جغرافی خطہ میں وہ مسلم معاشرہ موجود نہ تھا جو اسلامی نظام کے قیام کا تحمل کر سکے ۔ یہاں  "اسلام پسند " لوگوں کو صرف یہ کر نا تھا کہ وہ افراد کی ایمانی بیداری اور معاشرہ کی دینی اور اخلاقی اصلاح میں لگ جاتے۔سیاست کو وہ کچھ عرصہ کے لیے    اپنے حال پر چھوڑ دیتے ۔ یعنی الکشن میں جو لوگ ووٹوں کی اکثریت حاصل کرتے انھیں موقع دیا جاتا کہ وہ حکومت کریں ۔ ایک طرف انفرادی سطح پراصلاح کا عمل چلتا رہتا اور دوسری طرف الکشن پروسس اپنی فطری رفتار سے جاری رہتا۔ اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو اب تک یقینی طور پر وہ منزل آجاتی جو مطالباتی اسلام کے نتیجے   میں مزیددور ہوتی ہوئی نظر آ ر ہی ہے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے ۔ وہ بحر عرب کے کنارےواقع ہے ۔ ۱۸ویں صدی کے آغاز میں کراچی صرف ایک معمولی گاؤں تھا۔ یہاں زیادہ تر مچھیرے رہتے تھے ۔ ۱۸۳۹ میں انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا ۔ یہ قبضہ بے حداہم تھا۔ یہ واقعہ آخری مغل حکمراں بہادر شاہ ثانی کے زمانہ ٔحکومت( ۱۸۵۷ - ۱۸۳۷) میں ہوا ۔ اس وقت ہندستان میں بہت سے علماء اور مصلحین موجود تھے۔ مگر مطبوعہ ریکارڈ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ ان میں سے کوئی شخص

" کر اچی" کی اہمیت کو جانتا ہو ۔ کراچی کی اہمیت کو جاننے کے لیے    سمندری شعور درکار تھا، اور اس وقت مسلم زعماء میں سے ہر ایک صرف "سیاسی طاقت" کو جانتا تھا ، ان میں سے کسی کو "سمندری طاقت" کی خبر نہ تھی ۔ بدقسمتی سے یہی صورت حال ظاہری فرق کے ساتھ آج بھی باقی ہے۔

انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کر کے وہاں اپنی فوجیں رکھ دیں ۔ ۱۸۴۳ میں انھوں نے کراچی اور ملتان کے درمیان دریائے سندھ کے راستہ سے پہلی اسٹیمر سروس شروع کی۔ اب کراچی بندرگاہ کی حیثیت سے ترقی کرنے لگا۔ ۱۸۶۴ میں کراچی سے لندن کے لیے    براہ راست ٹیلی گراف کا نظام قائم کیا گیا ۔۱۸۶۹ میں نہر سوئز کھلنے کے بعد کراچی کی اہمیت مزید بڑھی ۔ ۱۸۷۳ تک کراچی ایک مکمل بندرگاہ بن چکا تھا ۔ ۱۸۷۸ میں یہاں ریلوے لائن بچھائی گئی ۔ ۱۹۱۴ میں کراچی پوری بر طانی شہنشاہیت میں گیہوں بر آمد کرنے کا سب سے بڑ امرکز بن گیا۔ ۱۹۲۴ میں یہاں ایک ہوائی اڈہ بنا یا گیا جواب توسیع کے بعد انٹرنیشنل ایر پورٹ کی حیثیت حاصل کر چکا ہے ۔ ۱۹۴۷ سے۱۹۵۹ تک وہ پاکستان کی پہلی راجدھانی تھا۔

سندھ میں توڑ پھوڑ کی سیاست لا متناہی طور پر جاری ہے ۔ اس سیاست کے نتیجے   میں کچھ لیڈروں کو شہرت اور مقبولیت مل رہی ہے۔ مگر خود سندھ اور اس کے عوام تیزی سے بدحالی کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ تاجر طبقہ (ملکی اور غیر ملکی دونوں) سندھ میں اپنا کاروبار سمیٹ رہا ہے اور پنجاب کی طرف اپنا رخ کرنے لگا ہے۔ آج ۳۰ ستمبر ۱۹۸۹ کے اخبار جنگ میں ایک اڈیٹوریل نوٹ (سندھ سے سرمایہ کاروں کی نقل مکانی )نظر سے گزرا۔ اس کے تحت درج تھا :

"ایک اخباری اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں ڈکیتی اور اغوا کے واقعات میں اضافہ کے بعد وہاں کے بالخصوص کراچی کے سرمایہ کاروں نے پنجاب کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ہے اور اب سندھ کے بجائے پنجاب میں نئے صنعتی یونٹ لگانے کے لیے    قومی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے رجوع کرنے کا آغاز کر دیا ہے اور پنجاب کے بڑے شہروں کے قرب و جوار میں اپنے عزیز و اقارب کے توسط سے صنعتی یونٹ لگانے اور دیگر کاروبار کرنے کے لیے    آراضی کی خرید میں مصروف ہیں۔ سرمائے کی گردش اور سرمایہ کاری صرف پر امن فضا میں ہی ممکن ہوتی ہے اور سرمائے کی منڈی اتنی حساس ہوتی ہے کہ محض ایک افواہ ہی اس کے کونے کونے تک ہلچل مچا کر رکھ دیتی ہے۔ صوبۂ سندھ میں ایک عرصے سے اغوا و ڈکیتیوں کے جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ یقینا ً سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں میں نقل مکانی کا رجحان پیدا ہوا ہو" ۔

ایک پاکستانی مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ خلیج کے ایک ملک میں کچھ دنوں رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک روز وہ وہاں کے پوسٹ آفس میں ایک خط کی رجسٹری کر نےگئے۔ لفافہ پر انھوں نے ہندستانی قاعدہ کے مطابق ، بھیجنے والے کا پتہ لفافہ کے نیچے بائیں طرف لکھا تھا۔ جب کہ خلیجی قاعدہ کے مطابق، اس پتہ کو لفافہ کے اوپر بائیں طرف لکھا جانا چاہیے  ۔

پوسٹ آفس کے عرب کلرک نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ غلط ہے ، دوسرے لفافہ پر صحیح پتہ لکھ کر لاؤ۔ آدمی نے کہا کہ میرے پاس دوسرا لفافہ نہیں، اور اس وقت بازار سے بھی دوسرا لفافہ حاصل کرنامشکل ہے ، آپ اسی لفافہ کو قبول کر لیں ۔ بات بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ کلرک نے بگڑ کر کہا : أ تخالف النظام (کیا تم نظام کی خلاف ورزی کرنا چاہتے ہو )  یہ جملہ وہاں کے لحاظ سے ایک قسم کی دھمکی تھی۔ اس کا مطلب ، دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ خاموش رہو، ورنہ تم کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خلیجی ممالک میں کتنا سخت گیری کا ماحول ہے۔ خلیجی ممالک میں جو امن ہے ، وہ دراصل اسی پابند نظام کا نتیجہ ہے ، اور ہندستان میں جو بے امنی ہے ، وہ یہاں کے آزاد نظام کا نتیجہ ۔ اس دنیا میں اکثر اوقات یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی بیک وقت دونوں چیزوں کو لے سکے۔ ایک کو لینے کے لیے    اسے دوسرے کو چھوڑنا پڑتا ہے۔

ایک صاحب نے کہا کہ ہندستان نے تقسیم کو دل سے قبول نہیں کیا ، اسی لیے    دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہیں اور دونوں جگہ ترقی کا عمل رکا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو عین وہی نفسیات ہے جس میں خود پاکستان کے لوگ بہت بڑے پیمانے پر مبتلا ہیں۔ یہاں جب بھی الکشن ہوتا ہے اور کچھ لوگ جیت کر اوپر آتے ہیں تو ہارنے والے لوگ ان کی جیت کو قبول نہیں کرتے۔ وہ فوراً  فاتح کے خلاف تخریبی کاروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ تخریب کاری کی اس سیاست میں اسلام پسند لوگ بھی پوری طرح شریک ہیں۔ اس کے نتیجے   میں پاکستان کے ماحول میں منفی ذہنیت اور تخریبی مزاج اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ اب اس کے ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ " تم جیتے ، میں ہارا " ایک سادہ سا جملہ ہے، مگر پاکستان کے بے ریش اور باریش رہنماؤں میں کوئی بھی شخص اب تک اس جملہ کو کہنے کی جراٴت نہ کر سکا۔

کراچی کے ہفت روزہ تکبیر (۱۴ ستمبر ۱۹۸۹) میں ایک پورے صفحہ پرنمایاں انداز میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ "ایک خادم ملت" کی طرف سے ہے اور اس کے اوپر قر آن کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ یہ مضمون ایک آیت کے ترجمہ اور اس کے عنوان پرمشتمل ہے جواس طرح ہے :

ہرگز نہ دبوایسے شخص سے

ہر گز نہ د بو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے ۔ طعنے دیتا ہے۔ چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔ بھلائی سے روکتا ہے۔ ظلم وزیادتی میں حد سے گزرنے والا ہے۔ سخت بد اعمال ہے ۔ جفا کار ہے اور ان سب عیوب کے ساتھ

بد اصل ہے۔ (القلم ۱۰۔ ۱۶) ولا تطع کا ترجمہ " ہر گز نہ دبو" اور اس کے اوپر مذکورہ جلی سرخی سے بظا ہر یہ تاثر ہوتا ہے کہ یہ آیت ایسے لوگوں سے لڑائی لڑنے کا حکم دے رہی ہے ۔ حالانکہ آیت کا یہ مفہوم نہیں۔ اسی قسم کے ترجموں اور تفسیروں نے موجودہ زمانے   میں مسلمانوں کا یہ مزاج بنا دیا ہے کہ ہر جگہ وہ لڑنے بھڑنے کے لیے    تیار رہتے ہیں۔ حکمت اور ہم آہنگی کو انھوں نے بزدلی سمجھ لیا ہےاور نزاع اور تصادم کو جہاد ۔

اس آیت میں "اطاعت نہ کرو" کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اثر نہ لو ۔ ان کی باتوں پردھیان نہ دو۔ ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنی دعوت کے انداز میں تبدیلی نہ کرو۔ یہاں" اطاعت" کا لفظ اس مفہوم میں شدت پیدا کرنے کے لیے    استعمال ہوا ہے نہ کہ یہ بتانے کے لیے    کہ ان سے" ہرگز نہ دبو" اس عسکری مفہوم کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ۔

 ایک مسلم نوجوان جو کالج میں پڑھ رہے ہیں ، ان سے میں نے یہاں کے تعلیمی اداروں کے حالات پوچھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں اسکولوں اور کالجوں میں سیاست بازی اور دہشت گردی اتنی عام ہو گئی ہے کہ وہاں اب پڑھنے کا ماحول باقی نہیں رہا۔ مزید یہ کہ یہاں مہلک ہتھیار (کلا شنکوف، پستول) بالکل عام ہیں۔ کسی بھی وقت ایک شخص آکر ایک طالب علم کو گولی کا نشانہ بنا کر بھاگ جائے گا اور اس کا کچھ نہیں ہوگا۔

انھوں نے بتایا کہ اس صورت حال کی بنا پر اب یہ حال ہے کہ جو لڑ کے واقعی پڑھنا چاہتے ہیں، وہ امریکہ چلے جاتے ہیں۔ اور جب وہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو اس کے بعد وہ وہیں رہ جاتے ہیں ۔ دوبارہ وہ پاکستان واپس نہیں آتے ۔ میں نے کہا کہ یہ تمام نقصانوں میں سب سے بڑا نقصان ہے ۔ جو نوجوان مجبوراً یہاں ٹھہریں وہ اچھی تعلیم حاصل نہ کرسکیں گے اور جن کے پاس وسائل ہوں یا جو زیادہ ہو نہار ہوں وہ باہر چلے جائیں گے۔ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزوں کے جاری کر دہ نظام تعلیم پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا :

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا   افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سو جھی

اکبر الٰہ آبادی اور ان کے جیسے دوسرے رہنماؤں کو معلوم نہ تھا کہ اصل مسئلہ قوم کی بے شعوری ہے نہ کہ انگریزوں کا تعلیمی نظام ۔ اس بے شعوری کی حالت میں "انگریز" کو یہ ضرورت نہیں کہ وہ ان کے ملک میں آکر ان کے نوجوانوں کو "قتل" کرے ۔ وقت کا فرعون اپنے ملک میں رہے گا اور ہماری قوم کے نوجوان خود بھاگ بھاگ کر اس کے یہاں پہنچیں گے اور اس سامنے اپنے آپ کو پیش کر دیں گے تاکہ وہ انھیں قتل کر سکے۔

ایک صاحب جو الرسالہ پڑھتے ہیں، انھوں نے راقم الحروف کے انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا انداز پروگورنمنٹ (pro-government) انداز ہے ۔ میں نےکہا کہ یوں نہ کہئے۔ بلکہ اس طرح کہئے کہ آپ کا انداز پروریلیٹی (pro-reality) انداز ہے۔ میرا کسی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں صرف یہ کرتا ہوں کہ میں حقیقت پسندی کی بات کرتا ہوں۔ مگر لوگوں کے منفی ذہن کی وجہ سے وہ انہیں حکومت پسندی کی بات معلوم ہوتی ہے۔

الرسالہ میں ایک بار ہندستان اور پاکستان کی جنگ کا ذکر تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کامیاب نہ ہو سکا ، اور اس کی وجہ اس کی کمتر تیاری تھی۔ اس کے مقابلہ میں ہندستانی فوج نے زیادہ بہتر منصوبہ بندی کا ثبوت دیا، اس لیے    وہ پاکستان کی پیش قدمی کو روک دینے میں کامیاب رہے۔ یہ تذکرہ صرف بطور سبق تھا۔ مگر الرسالہ کے بہت سےپاکستانی خریدار اس پر سخت ناراض ہوئے حتی کہ انھوں نے الرسالہ کو پڑھنا بند کر دیا۔

یہاں اخبار نوائے وقت ۲۵ستمبر ۱۹۸۹ میں ایک مضمون (اصل حقائق) پڑھنے کو ملا۔ یہ اخبار بیک وقت لاہور، راولپنڈی، ملتان ، کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ ایک سابق فوجی افسر ابوذر غفاری نے جو کچھ لکھا تھا ، اس کا ایک حصہ عبرت کے طور پر یہاں نقل کیا جاتا ہے:

"پاک فوج کے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل مرزا محمد اسلم بیگ نے ۱۲ ستمبر ۱۹۸۹ کو جی ایچ  کیو آڈیٹوریم میں ملک بھر کے ایڈیٹروں اور سینئر صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیے تھے۔ انھوں نے جب یہ کہا کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ ہم نے نہ جیتی نہ ہاری اور یہ کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ ہم ہار گئے تو اس نے ہر فوجی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا کہ وہ ان دونوں جنگوں کا دوبارہ جائزہ لیں۔

جنرل صاحب کا یہ کہنا حقائق کے عین مطابق ہے کہ ۱۹۶۵ کی جنگ ہم نے نہیں جیتی تھی اور نہ ہی ہم اسے ہارے تھے۔ ۱۶ستمبر تک پاکستان اور بھارت دونوں یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ ان میں سے کوئی بھی اس جنگ کو نہیں جیت سکتا۔ اسی لیے    دونوں کی یہ کوشش تھی کہ کوئی اس جنگ کو بند کروادے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ بچوں کا کھیل نہیں۔ جنگ لڑنے کے لیے    امن کے زمانے میں بہت زیادہ تیاری کرنا پڑتی ہے۔ تیزی سے ختم ہوتے ہوئے گولہ بارود کے ذخائر اور فوجی ساز و سامان کی توڑ پھوڑنے دونوں ممالک کے جرنیلوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بہتر یہی ہوگا کہ جنگ جلد از جلد بند کر دی جائے ۔ اسی لیے    جب سلامتی کونسل نے جنگ بندی کے لیے    کہا تو دونوں ممالک نےاسے تسلیم کر لیا۔

بدقسمتی سے سیاست دانوں کو اپنے عوام کو ساتھ رکھنے کے لیے    قدم قدم پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے اسی پاکستان کے حکمرانوں نے یہ اعلان کیا کہ انھوں نے بھارت کی کئی گنا افواج کو شکست دے دی ہے اس طرح پاکستان کے عوام نے یہ یقین کر لیا کہ انھوں نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ شاعروں ادیبوں اور گانے والوں نے پاک افواج کے بہت گن گائے۔

سیاست دانوں نے نہ صرف عام لوگوں کو گمراہ کیا تھا بلکہ فوج بھی یہ سمجھنے لگی کہ اس نے بھارتی فوج کو شکست دے دی ہے۔ فوجی تقریبات میں گانے والوں کو بلایا گیا جنہوں نے "میرا ماہی چھیل چھبیلا" " کر نیل نی جرنیل نی " جیسے گانے گائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوجی خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے۔ یہ صورت حال حساس فوجی افسروں کے لیے    بہت تکلیف دہ تھی۔ اس جنگ کے چند ہفتوں بعد جب جنرل موسٰی خان سیالکوٹ تشریف لائے اور انھوں نے وہاں دو ڈویژنوں کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے اس جنگ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تو میں نے ان سے سب کے سامنے جب دورانِ جنگ ہونے والی چند غلطیوں کا ذکر کیا تو ہر طرف سے شور اٹھا کہ بیٹھ جاؤ۔ میری تنقید تعمیری تھی ۔ میں چاہتا تھا کہ ہم جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے سوچیں تا کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کر سکیں ۔ لیکن میں ابھی اس وقت اتنا با ہوش نہیں تھا کہ یہ سمجھتا کہ انسان اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے لیے    نہیں ہوتا۔ اور وہ اپنی غلط بات پر اصرار کرتا رہتا ہے۔

کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے جگہ جگہ "یوم شہداء "کا بورڈ نظر آیا۔ آج ۳۰ ستمبر کے اخبارات (مثلا ًحریت ۳۰  ستمبر ۱۹۸۹ ) کے صفحہ اوّل پر اس قسم کی سرخیاں تھیں : آج پورے سندھ میں یوم شہداءحیدرآباد منا یا جا رہا ہے "۔ اسی کے ساتھ آج ہی کے اخبار ( نوائے وقت ۳۰ ستمبر ۱۹۸۹) میں صفحہ اوّل پر جلی سرخی تھی کہ" اتر پردیش اور مقبوضہ کشمیر میں ۴۲ مسلمان شہیدکر دیے گئے"۔ مسلمان ہندستان میں بھی "شہید" ہو رہے ہیں اور پاکستان میں بھی۔

کراچی کے اخبار حریت (۳۰ ستمبر ۱۹۸۹) اور اسی تاریخ کے وفاق اور نوائے وقت میں جو خبریں پڑھیں ، ان کا خلاصہ یہ تھا کہ "۳۰ ستمبر کو مہاجر قومی موومنٹ کے زیر اہتمام پورے سندھ میں یوم شہداء حیدرآباد منایا گیا ۔ پچھلے سال ۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ کو یہ واقعہ ہوا تھا کہ مسلح دہشت گرد (پٹھانوں) نے کلاشنکوف اور دیگر جدید خود کار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کر کے

حیدر آباد سندھ میں دوسو سے زیادہ (مہاجر) شہریوں کو شہید کر دیا تھا۔ ان میں بوڑھے ، جوان، عورتیں، بچے سب شامل تھے۔ ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے    مہاجر قومی موومنٹ نے شہیدوں کی پہلی برسی کے موقع پر یوم شہداءِ حیدر آباد منانے کا اعلان کیا ہے۔ دیگر کارروائیوں کے علاوہ پورے حیدرآباد میں جگہ جگہ سیاہ بینر آویزاں کیے گئے جن پر ۳۰ ستمبر کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا۔

موجودہ زمانے   کے مسلمانوں کی یہ انوکھی خوش قسمتی ہے کہ وہ اگر غیر مسلموں کی گولی سے مارے جائیں تب بھی وہ شہید ہوتے ہیں، اور اگر وہ آپس میں لڑ کر مریں تب بھی شہید ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی کی یہ قسم اس سے پہلے کسی دور کے مسلمانوں کے حصے میں نہیں آئی۔

نوائے وقت (۳۰ ستمبر ۱۹۸۹) سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں ایک طرف جئے سندھ کے نعرے ہیں ، اور دوسری طرف جئے مہاجر کے نعرے۔ صفحہ اول پر مہاجر تحریک کے لیڈر الطاف حسین کی تقریر کی رپورٹ تھی۔ اس کے چند جملے یہ ہیں : ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی نے جس طرح ایوان میں مہاجروں کے حقوق کے لیے    آوازبلند  کی ہے ، اس کی مثال ۴۲ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ انھوں نے کہا کہ مہاجروں میں جوش و جذبہ  برقرار رہا تو مہاجروں کو سمندر میں دھکیلنے کا دعوی کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ یہ کہنا شروع کر دے کہ جو سندھی نہیں ہے ، وہ سندھ سے چلا جائے۔ ہم نے سندھی بن کر رہنے کے لیے   نہیں، بلکہ پاکستانی بن کر رہنے کے لیے    پاکستان بنایا تھا "۔

الفاظ میں معمولی تبدیلی کر دیجئے تو ہندستان کا مسلمان لیڈر بھی عین یہی تقریر کر رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کا مسئلہ"ہند و ظلم" کا مسئلہ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ٹھیک یہی واقعہ پاکستان میں کیوں پیش آتا۔ اصل یہ ہے کہ یہ بے دانشی کا مسئلہ ہے۔ مسلمان (یا صحیح تر لفظوں میں ان کے رہنما )دانش کو کھو بیٹھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ہی قسم کے مسائل سے دونوں جگہ دوچار ہیں ، ہندستان میں بھی اور پاکستان میں بھی۔

اخبار نوائے وقت (۳۰ ستمبر ۱۹۸۹) میں صفحہ اوّل پر ایک خبر تھی ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ امیر قاضی حسین احمد صاحب نے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ" پاکستان کی مسلمان امت کو ایک سازش کے تحت پچاس قوموں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس وقت اولین ضرورت اس امر کی ہے کہ (زبان ، علاقہ ، برادری ، فرقوں میں) منتشر اس امت کو مجتمع کر کے ایک قوت بنایا جائے "۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے دوسرے رہنماؤں ، چودھری رحمت الہٰی اور پروفیسر غفور احمد نے پاکستان کے موجودہ حالات کی نہایت تاریک تصویر پیش کی۔

میں نے جماعت اسلامی کے ایک صاحب سے کہا کہ آپ لوگ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو عہد ساز شخصیت کہتے ہیں۔ پھر جو عہدانھوں نے بنایا ہے، وہ کہاں ہے ۔ وہ نہ ہندستان میں نظر آتا اور نہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ نہ کسی دوسرے چھوٹے یا بڑے مقام پر ۔ اگر آپ کسی ایسے مقام کا پتہ بتائیں جہاں یہ عہد سازی ہوئی ہے تو میں وہاں پہنچ کر اس کو دیکھوں گا۔ مگر وہ کسی ایسے مقام کا نام نہ لے سکے۔

قدیم زمانے   کے لوگ اپنے بادشاہوں کی تعریف میں مبالغہ آمیز اشعار کہا کرتے تھے۔ موجودہ زمانے   کے مسلمان اپنے مفروضہ اکابر کی شان میں اسی قسم کی شاعرانہ لفّاظی کر رہے ہیں۔ یہ ذوق سب سے زیادہ ان دو ملکوں میں ہے جس کا نام ہندستان اور پاکستان ہے۔

پاکستانی اخبارات میں ہندستان کے فساد کی خبریں تھیں ۔ ان میں اس قسم کی سرخیاں نظر پڑیں––––  بھارت میں مسلم کشی، بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ۔ ان سرخیوں کو پڑھ کر ہندستان کے بارے   میں عجیب خونیں تصور قائم ہوا۔ شبہ ہوا کہ دہلی ائیر پورٹ پر اترنے کےبعد میں زندہ گھر پہنچوں گا یا میری لاش گھر لے جائی جائے گی۔

مگر ظاہر ہے کہ یہ مبالغہ اور تعمیم کی بات تھی ۔ بدقسمتی سے دونوں ملکوں میں یہی غیر معتدل صورت حال قائم ہے۔ ہندستان کے اخبارات پاکستان کے بارے   میں اسی قسم کی مبالغہ آمیز خبریں شائع کرتے ہیں۔ اور پاکستان کے اخبارات ہندستان کے بارے   میں اسی طرح مبالغہ اور تعمیم کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ اس ناگوار صورت حال کو ختم کرنے کی صورت صرف ایک ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک ملک یک طرفہ طور پر اسے ختم کر دے۔ اس کے بعد دوسرے ملک میں اپنے آپ اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

کراچی سے دہلی کا سفر پی آئی اے کے ذریعہ طے ہوا۔ اور میں ۳۰ ستمبر ۱۹٨٩ کی رات کو دہلی پہنچا۔ میرے ساتھ سفر میں ہمیشہ صرف ایک چھوٹا سا ہینڈ بیگ ہوتا ہے۔ نہ مزید لگیج اور نہ کسٹم کا کوئی سامان۔ اس لیے    جہاز سے اترنے کے بعد مجھے ایر پورٹ پر رکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ میں فور اً "گرین چینل" کی طرف سے باہر آجاتا ہوں ۔ آج بھی ایسا ہی پیش آیا۔

حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جس کو دنیا میں سامان کم ملا ، اس کا حساب آخرت میں بھی کم ہوگا  (قِلَّةُ الْمَالِ ‌أَقَلُّ ‌لِلْحِسَابِ) (مسند  احمد،23625)دل نے کہا کاش دنیا کا یہ واقعہ آخرت میں پیش آنے والے معاملہ کی علامت ہو۔ جس طرح دنیا کے ایر پورٹ نے مجھے آسانی کے ساتھ گزار دیا ، اسی طرح آخرت کے "ایر پورٹ" پر بھی مجھ کو آسانی کے ساتھ گزار دیا جائے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز ۔

انسانی جہاز مجھ کو وطن سے اٹھا کر لے گیا اور افریقہ کی زمین پر اتار دیا۔ اور پھر دوبارہ وطن کی طرف واپس لایا۔ موت کا جہاز مجھ کو لے جا کر آخرت کی دنیا میں اتار دے گا جہاں سے واپسی کے لیے    کوئی سواری ملنا ممکن نہیں ۔ ایک سفر ختم ہو گیا ، دوسرا سفر شروع ہونے والا ہے۔ پہلے سفر کی تاریخیں معلوم تھیں، دوسرے سفر کی کوئی تاریخ معلوم نہیں۔ کتنا فرق ہے ایک سفر میں اور دوسرے سفر میں۔ اسی فرق کو جاننے کا نام ایمان ہے اور اسی فرق کو نہ جاننے کا نام کفر۔

سفر نامہ بہت لمبا ہو گیا۔ مگر اس کی آخری سطریں لکھتے ہوئے مجھے احساس ہو رہا ہے کہ وہ سراسر نا تمام ہے۔ شاید جو بات لکھنے کی تھی ، وہی اس میں لکھنے سے رہ گئی۔ کوئی انسان دوسروں کی کہانی کیا لکھے گا ، وہ خود اپنی کہانی بھی تحریر نہیں کر سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ پڑھنے والے صرف وہ ہیں جو نہ لکھے کو پڑھیں ۔ جاننے والے صرف وہ ہیں جو نہ بتائے ہوئے کو جانیں۔ مگر آج کی دنیا میں لکھے ہوئے کو پڑھنے والے بھی موجود نہیں۔ پھر نہ لکھے ہوئے کو پڑھنے والے اس دنیا میں کہاں ملیں گے۔ خدا اس بندے پر رحم فرمائے جو زبان رکھتے ہوئے بے زبان ہے۔ جس کے پاس قلم ہے ۔ مگر جب اس نے قلم اٹھایا تو وہ صرف یہ لکھ سکا کہ میں نے لکھنا چاہا تھا ، مگر میں لکھنے میں ناکام رہا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom