حسرت کا دن
قرآن میں قیامت کے دن کو ندامت اور حسرت کا دن (مریم ۳۹) کہا گیا ہے ۔ قیامت کے دن جب تمام حقیقتیں کھلیں گی تو آدمی اچانک محسوس کرے گا کہ دنیا میں کیسے کیسے قیمتی مواقع تھے جب کہ وہ خدا پرستی کا ثبوت دے کر آخرت میں اس کا انعام پاسکتا تھا۔ مگر اس وقت اس نے یہ مواقع کھو دیے اور اب یہ مواقع کبھی اس کے لیے آنے والے نہیں۔ مواقع کو کھونے کا یہ احساس بلاشبہ سب سے بڑی نفسیاتی سزا ہوگی جو ابدی طور پر آدمی کو تڑپاتی رہے گی۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے :
وَإِنَّهُۥ لَتَذۡكِرَةٞ لِّلۡمُتَّقِينَ ٤٨ وَإِنَّا لَنَعۡلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ ٤٩ وَإِنَّهُۥ لَحَسۡرَةٌ عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَ [الحاقة: 48-50] اور بلاشبہ یہ یاد دہانی ہے ڈرنے والوں کے لیے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں اس کے جھٹلانے والے ہیں اور وہ منکروں کے لیے پچھتاوا ہے۔
دنیا میں بار بار آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جب کہ وہ ایک عمل کرکے آخرت کا انعام حاصل کرسکے ۔ مگر آدمی ظلم اور علو( النمل ۱۴) کی بنا پر مطلوبہ عمل نہیں کرتا ۔ ایسے لوگ جب دنیا سے نکل کر آخرت میں پہونچیں گے تو اچانک وہ محسوس کریں گے کہ یہاں ان کے لیے حسرت اورپشیمانی کے سوا اور کچھ نہیں ۔
اب ایک ایک کر کے انھیں وہ گزرے ہوئے لمحات یاد آئیں گے جب کہ ان کے سامنے آخرت کے لیے عمل کرنے کا ایک موقع آیا ، مگر انھوں نے اس موقع کو بیدردانہ طور پر کھو دیا ۔
اس وقت آدمی کہے گا کہ آہ ، میرے سامنے امرِ حق ظاہر ہوا جس کا ساتھ دے کر میں حق کا اعتراف کرنے والا بن سکتا تھا۔ مجھے موقع ملا کہ میں حق کو اس کے حقدار کے حوالہ کر دوں ۔ مجھے یہ موقع ملا کہ میں حق کی گواہی دینے والا بنوں ۔ مجھے یہ موقع ملا کہ میں درست بات کہوں ، خواہ وہ میرےموافق ہو یا میرے خلاف۔ مجھے موقع ملا کہ میں ان لوگوں میں بنوں جو خدا کے خوف سے اپنی زبان بند کر لیتے ہیں، مگر ان مواقع کو میں نے کھو دیا۔ میں اپنے آپ کو خدا کے مطلوب بندوں کی فہرست میں درج نہ کرا سکا ۔ میں نے دنیا میں نیکی کے مواقع کو کھو یا تھا، اس لیے آخرت میں انعام کے مواقع میں بھی اب میرا کوئی حصہ نہیں ۔