معیار کو بلند کرنا

قدیم عرب میں برابر کی اخلاقیات کا رواج تھا۔ ان کی زندگی کا اصول یہ تھا کہ جو شخص جیسا کرے، اس کے ساتھ ویسا ہی کیا جائے۔ یعنی اچھا سلوک کرنے والے کے ساتھ اچھا سلوک اور بُرا سلوک کرنے والے کے ساتھ برا سلوک۔ ایک جاہلی شاعر اپنے حریف قبیلے کے بارے   میں کہتا ہے کہ زیادتی کی کوئی قسم ہم نے باقی نہیں چھوڑی۔ انھوں نے ہمارے ساتھ جیساکیا تھا، ویسا ہی ہم نے ان کو بدلہ دیا:

فلَمْ يَبْقَ ‌سِوَى ‌الْعِدْوَانُ دِنَّاهُمْ كَمَا دَانُوا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے ان کے اس تصورِ اخلاق کو بدلا۔ مساویانہ اخلاق کے بجائے آپ نے ان کو بلند اخلاقی کی تعلیم دی۔ آپ نے فرمایا کہ أحسِن إلَى ‌مَن ‌أساءَ ‌إلَيك ( جو شخص تمہارے ساتھ برا سلوک کرے ، اس کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو) ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

لَا ‌تَكُونُوا ‌إِمَّعَةً، تَقُولُونَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا(مشكاة المصابيح،حدیث  نمبر،5129)

تم لوگ امّعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو، اگر لوگ ہمارےساتھ اچھا کریں تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا کریں گے۔ اور اگر وہ زیادتی کریں تو ہم بھی زیادتی کریں گے۔ بلکہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیارکرو کہ لوگ تمہارے ساتھ اچھا کریں تو تم ان کے ساتھ اچھا کرو گے اور اگر لوگ تمہارےساتھ برا کریں تب بھی تم ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرو گے۔

آپ کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے شعور کو بلند کیا جائے ۔ ان کے اخلاق کو اونچا کیاجائے۔ ان کی حالت کو ہر اعتبار سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی جائے۔

انسان کے انسانی معیار کو بلند کرنا فکری، علمی، اخلاقی حیثیت سے اس کو اوپر اٹھانا،اہم ترین کام ہے۔ اسی میں فرد کی بھلائی ہے اور اسی میں پورے معاشرہ کی بھلائی بھی۔ یہ عین سنتِ رسول ہے اور اس کو زندہ کرنا سنتِ رسول کو زندہ کرنا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom