اللہ کی مدد
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور اس کے بعد مسلمانوں کو جو غیر معمولی قسم کی عالمی فتوحات حاصل ہوئیں، اس کی توجیہہ پر تاریخ دانوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴)کا مقالہ نگار اس سلسلے میں لکھتا ہے :
At least three aspects of the contemporary situation of Byzantium and Persia account for the phenomenal ease with which the Arabs overcame their enemies: first, both empires, exhausted by wars, had demobilized before 632 (vol 3, p. 557).
اس زمانے کی بازنطینی اور ایرانی شہنشاہیت کے کم از کم تین پہلو ہیں جو اس بات کی تشریح کرتے ہیں کہ ان کے اوپر عربوں کو اتنی آسانی سے اتنی نمایاں کامیابی کیسے حاصل ہوئی ۔ ان میں سے پہلا سبب یہ ہے کہ دونوں شہنشاہیتیں آپس کی جنگ کے نتیجے میں اتنا برباد ہوئی تھیں کہ وہ ۶۳۲ء سے پہلے ہی فوجی اعتبار سے ختم ہو چکی تھیں ۔
یہ بات تاریخی اعتبار سے صرف جزئی طور پر صحیح ہے ۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں شہنشاہیتوں نے غیر معمولی فوجی طاقت سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا ۔ تاہم اس سے قطع نظر، مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ پیش آنے کے عین پہلے دونوں شہنشاہیتوں میں طویل خونی جنگ کا پیش آنا ، اسلام کے حق میں براہ راست خدائی مدد تھا۔ موجودہ دنیا میں خدا کی مدد اسباب کے پردہ میں آتی ہے۔ اور روم و ایران کی باہمی جنگ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے دشمنوں کو اتنا کمزور کر دیا کہ وہ اسلام کے لیے کوئی طاقت ور خطرہ نہ بن سکیں ۔
آج بھی خدا کی یہ مدد ظا ہر ہو سکتی ہے بشرطیکہ اہل اسلام اپنے عمل سے اس کا وہی استحقاق ثابت کر سکیں جو دور اوّل کے مسلمانوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا تھا ۔
اللہ کی مدد کی بے شمار صورتیں ہیں۔ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ وہ کس صورت سے کسی کے لیےاپنی مدد بھیجے گا۔ تاہم یہ یقینی ہے کہ جو لوگ اللہ پر سچا ایمان لائیں اور اس کے لیے مطلوبہ عمل کریں، ان کے حق میں اللہ کی مدد ضرور آتی ہے ، خواہ وہ ایک صورت میں آئے یا دوسری صورت میں۔