قرآن کا کرشمہ
اسلام سے پہلے عرب میں تعلیم بہت کم تھی۔ سن ۷ ھ میں جو اثا (بحرین ، الحساء) جیسے بڑے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تبلیغی خط بھیجا۔ راوی کہتے ہیں کہ سارے علاقے اور قبیلے میں ایک شخص بھی نہ تھا جو خط کو پڑھ سکے ۔ لوگ تلاش کرتے رہے یہاں تک کہ ایک نوجوان ملا جس نے خط کو پڑھ کر سنایا ۔ تقریباً اسی زمانے کا واقعہ ہے ، النمر بن ثولب مسلمان ہوئے ۔ وہ ایک بڑے قبیلے کے سردار تھے اور اتنے بڑے شاعر تھے کہ ان کے اشعار کا ایک دیوان تیار ہوا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کے قبیلہ عکل (یمن) کا سردار مقرر کر کے ایک تحریری پروانہ عطا کیا۔ مگر وہ اس کو پڑھ نہیں سکتے تھے۔ بازار میں آکر پوچھنے لگے "کیا آپ لوگوں میں کسی کو پڑھنا آتا ہے جو یہ خط پڑھ کرمجھ کو سنا دے"۔
کہا جاتا ہے کہ بعثتِ نبوی کے وقت شہر مکہ میں مشکل سے چند درجن آدمی ایسے مل سکتے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے ہوں۔ مدینہ میں اس سے بھی کم عرب یہ فن جانتے تھے ۔ لیکن دوسری صدی ہجری میں عربی زبان علمی نقطۂ نظر سے دنیا کی متموّل ترین زبان بن گئی ۔ عربوں میں لسانی ترقی کا زمانہ اتنا مختصر ہے کہ دنیا کی پرانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
عربوں کی تیز رفتار علمی اور لسانی ترقی کا یہ واقعہ کیوں کر پیش آیا ۔ یہ حیرت انگیز واقعہ براہ راست قرآن کا کرشمہ تھا۔ قرآن ایک کتاب دعوت ہے ۔ جو شخص قرآن سے متاثر ہوتا ہے اور اس پر ایمان لا کر اسے پڑھتا ہے، اس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ قرآن نے اس کو داعی بنا دیا ہے۔ اس کا دل و دماغ داعی کا دل و دماغ بن جاتا ہے۔ اس کے اندر یہ سیلاب امڈپڑتا ہے کہ اس نے جس ابدی صداقت کو خدا کی کتاب کے ذریعہ پایا ہے ، اس کو وہ تمام انسانوں تک پہنچا دے ۔
یہ دعوتی جذبہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ زبانوں کو سیکھے ۔ وہ ہر طرح کی واقفیت حاصل کرے۔ وہ اپنے آپ کو علمی اعتبار سے مسلح کرے۔ پہلے اگر وہ بے زبان تھا تو اب وہ بازبان بن جاتا ہے۔ پہلے اگر وہ بے علم تھا تو اب وہ با علم ہو جاتا ہے ۔ دعوت اپنی عین فطرت کے اعتبار سے آدمی کو صاحبِ علم اور صاحب ِشعور بنا دیتی ہے ۔ دعوت کے ساتھ بے علمی اور بے شعوری کا جمع ہونا ممکن نہیں۔