اصلی معیار

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مریم کے یہاں جب حضرت مسیح کی ولادت ہوئی اور اشاره ٔربانی کے مطابق بچہ کولے کر یہودیوں کی بستی میں آئیں تو یہودی علماء ان کے گرد جمع ہو گئے     ۔ انھوں نے کہا کہ اے مریم ، تم نے بڑا طوفان کر ڈالا ۔ اے ہارون کی بہن ، نہ تمہارا باپ کوئی براآدمی تھا اور نہ تمہاری ماں بد کار تھی (مریم ۲۷-۲۸)

یہودی علماء کے اس کلام سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا پرست اور حق پسند لوگ تھے ۔ وہ لوگوں کو برائی سے روکنے والے اور انھیں نیکی کا حکم دینے والے تھے۔ اس کے باوجود وہ اللہ کے یہاں خدا پرست اور حق پسند مانے نہیں گئے، اور نہ انھیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے والا قرار دیا گیا ۔ اس کے بجائے وہ خدا کی نظر میں ملعون ٹھہرے اور عذاب کے مستحق قرار پائے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے "حضرت مریم " کے خلاف تقریر کرنے میں تو حق پسندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مگر جب خود اپنے آپ کو حق پسند بنانے کا وقت آیا تو وہ اپنے آپ کو حق پسند بنانے پر راضی نہ ہو سکے ۔ دوسرے کے معاملےمیں وہ بظاہر مصلح تھے ، مگر اپنی ذات کے معاملےمیں وہ سرکش اور مفسد بن گئے     ۔

ان کی ذات کا یہ امتحان اس وقت ہوا جب کہ حضرت مسیح ، جو کہ ابھی نومولود بچہ کی حیثیت سے ماں کی گود میں تھے، اچانک معجزۂ الہٰی کے تحت بول پڑے اور اپنے بارے   میں سچے نبی ہونے کا اعلان کیا۔ اس معجزاتی واقعے نے حضرت مریم کی براٴت اور حضرت مسیح کی نبوت دونوں کو آخری حد تک ثابت کر دیا۔ مگر یہودی علماء نے نہ حضرت مریم کی پاک دامنی کا اعتراف کیااور نہ حضرت مسیح کی نبوت کا۔

دوسروں کے سامنے تقریر کرنے میں مصلح اور حق پسند ہونا کسی کو مصلح اور حق پسند نہیں بنا تا ۔مصلح اور حق پسند صرف وہ ہے جو اپنی ذات کے معاملہ میں مصلح اور حق پسند ثابت ہو۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom