ایک کتاب

لندن سے مذاہب کی ایک مختصر انسائیکلو پیڈیا چھپی ہے۔ اس میں مختلف مغربی علماء کے ۲۴ مقالات درج ہیں۔ ماقبل تاریخ سے لے کر اب تک کے تمام مذاہب کی معلومات نہایت سلیقےکے ساتھ جمع کی گئی ہیں۔ بڑی تعد اد میں تاریخی تصویر یں شامل ہیں۔ طباعت اور ترتیب کی موزونیت نے کتاب کو ایک خوبصورت البم بنا دیا ہے۔ کتاب کا نام یہ ہے :

Man and His Gods, The Hamlin Publishing Group Ltd,

London, 1974, pp. 440

قدیم زمانے   میں مذہب پر جو کتا بیں لکھی جاتی تھیں ، وہ یا توکسی مذہب کی موافقت میں ہوتی تھیں یا اس کی مخالفت میں۔ مذاہب کا غیر جانب دارانہ تاریخی تعارف قدیم زمانے   میں ایک لا معلوم چیز تھی۔ موجودہ زمانے   میں جو چیزیں پیدا ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مذاہب اور دوسرے موضوعات پر اس انداز سے کتاب لکھی جاتی ہے کہ گویا لکھنے والا اپنے موضوع پر کوئی موافق یا مخالف رائے نہیں رکھتا، وہ صرف ایک قلمی کیمرہ کا فرض انجام دے رہا ہے۔ اس کی ساری دلچسپی اصل صورت حال کی تصویر کشی سے ہے نہ کہ اس کے بارے میں اپنی کوئی رائے دینے ہے۔

 زیرِ نظر کتاب بھی اسی انداز پر لکھی گئی ہے۔ چنانچہ اس کے مرتب نے کتاب کا خاتمہ حسب ذیل سطروں پر کیا ہے : " اس انسائیکلو پیڈیا نے حقائق پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا کام حکم لگانا یا کوئی معیار قائم کرنا نہیں ، اس نے صرف سچائی کو پیش کر دیا ہے" (صفحہ ۴۳۱)

قدیم طرز کی متکلمانہ کتا بیں " پروپیگینڈ الٹر یچر" سمجھی جاتی ہیں۔ مگر اس طرز تصنیف نے آج کے متکلمین کو موقع دیا ہے کہ وہ بظاہر لوگوں کو علوم کی تدوین کرتے ہوئے نظر آئیں ، حالانکہ حقیقۃ ً  وہ اپنا کلامی لٹریچر تیار کر رہے ہوں۔ پھر یہی کتا بیں تعلیم گاہوں میں عمومی نصاب کے طور پر داخل ہوں ۔ لائبریریوں کے ریفرنس سکشن میں سجائی ہوئی ہوں ۔ علمی تحقیق کے لیے    ان کامطالعہ کیا جائے۔

اس طرز تصنیف کے رواج سے یہودیوں اور عیسائیوں نے کافی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اند از ترتیب کے لحاظ سے مکمل طور پر غیر جانب داررہ کر مذہب اور تاریخ کے موضوعات پر کتا بیں لکھتے ہیں۔ ان کو آدمی اس طرح پڑھتا ہے گویا کہ وہ ایک موضوع کا علمی مطالعہ کر رہا ہے نہ کہ اس کے بارے میں کسی موافق یا مخالف کا تبصرہ پڑھ رہا ہے۔ پھر نہایت ہوشیاری سے وہ اس کے بین السطور میں اپنا نقطہ ٔنظر شامل کر دیتے ہیں۔

 اس انسائیکلو پیڈیا میں جس کے ایک مقالہ نگار ہندو اور باقی سب یہودی یا عیسائی ہیں، اسلام کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ بظاہر اس میں اسلام کی دعوتی ، تہذیبی اور سیاسی کامیابیوں کا فیاضانہ اعتراف موجود ہے۔ حتی کہ اس میں یہ جملہ بھی ہے کہ اسلام نے انسانی تاریخ کے رخ کو موڑ دیا :

Its advent changed the course of human history (p. 38).

اس کتاب میں تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ زمانے   میں بھی اسلام نے پر امن ذرائع سے نئی کامیابیاں new gains) ) حاصل کی ہیں۔ افریقہ میں تیزی سے نومسلموں کا اضافہ کسی تبلیغی کوشش سے زیادہ اسلام کی اپنی کشش کی بنیاد پر ہو رہا ہے (۴۰۴) تاہم اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جن کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ لکھنے والے نے یہ سطریں کیوں کر لکھیں۔ مثال کے طور پر صفحہ۳۹۵ پر درج ہے :

محمد کو اپنی زندگی میں عرب سے باہر کسی علاقے کا قبضہ حاصل نہیں ہوا۔ کسی طرح یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سمجھتے ہوں کہ عربوں کے علاوہ بھی اسلام میں کسی کے لیے    کوئی معنویت ہے۔ اگرچہ بعد کا مسلم نظر یہ ان کے عالمی مقاصد کی توثیق کرتا ہے۔ تاہم اپنی زندگی کے آخری زمانے   میں انھوں نے عرب کی بعض سرحدی عیسائی ریاستوں کے خلاف مہم بھیجی جو جزیرہ نما کے شمال میں واقع تھیں۔ ان مہموں نے مسلمانوں کو عظیم بازنطینی اور ساسانی سلطنتوں سے ٹکر ادیا اور پیغمبر کی وفات کے جلد ہی بعد تیز رفتا ر اور دائمی فتح کا سبب بن گئیں ۔

اس پیراگراف نے اسلام کو اس سطح پر کھڑا کر دیا جہاں موجودہ مسیحیت ہے۔ بائبل کے مطابق ، حضرت مسیح اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجے گئے (متی ۲۴:۱۵) مگر بعد کو سینٹ پال اور دوسرےمسیحی راہبوں نے کشف و رویا کا سہارا لے کرمسیحیت کو عالمی بنادیا۔ مگر پیغمبر ِ اسلام کی بابت یہ بیان بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ قرآن میں صاف لفظوں میں اعلان کیا گیا ہے کہ آپ تمام دنیا کے لیے    ڈرانے والے (فرقان ۔۱) بنا کر بھیجے گئے ۔ آپ نے خود فرمایا کہ أُرْسِلْتُ ‌إلى ‌النّاس ‌كَافّةً (میں تمام دنیا کے لیے    بھیجا گیا ہوں) آپ نے اپنی زندگی ہی میں عرب کے باہر دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے اورصریح طور پر پیش گوئی فرمائی کہ اسلام عنقریب ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔ وغیرہ۔

 اسی طرح اس کتاب میں وہ غلطی بھی کی گئی ہے جو موجودہ زمانے   کے رواجی مطالعہ کی بنا پر اکثر مذہبی مصنفین کرتے ہیں۔ اسلام کسی تاریخ کا نام نہیں ، وہ قرآن ، رسول کی سنت اور آپ کے اصحاب کے چھوڑے ہوئے نمونہ کا نام ہے۔ اس لیے    اسلام کے مطالعہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تعلیمات، رسول کی ثابت شدہ سنت اور صحابہ کرام کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر اسلام کو سمجھا جائے۔ اسلام صرف اسی چیز کا نام ہو جو ان معیاری ذرائع سے معلوم ہو۔ اس کے سوا کسی چیز کا نام اسلام نہ ہو ۔ بعد کے دور میں اسلام کی جو تاریخ بنی ، اس کو مذکورہ بالا معیار پر جانچا جائے اور اتنے ہی حصہ کو اسلام قرار دیا جائے جو اس معیار پر پورا اترے۔ باقی کو " انحراف" قرار دے کر اسلام کی حقیقی تاریخ سے الگ کر دیا جائے ۔ مگر موجودہ زمانے   کے مصنفین اس کے بجائے یہ کرتے ہیں کہ اسلام کے نام پر مسلمانوں میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے ، اس کو اکھٹا کرتے ہیں اور اس پورے مجموعہ کو اسلام قرار دے دیتے ہیں۔ اس طرح تو حید سے لے کر بزرگ پرستی تک ہر چیز کا نام اسلام ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر کبھی کسی "مسلمان" نے گردو پیش کی فضاسے متاثر ہو کر ایک تصویر بنائی جس میں دکھایا کہ فرشتہ ایک پر دار خاتون کی شکل میں آیا ہے اور پیغمبرِ اسلام کو خدا کی وحی پہنچارہا ہے ۔ اس تصویر کو نہایت اہتمام سے اڈنبرا یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ کر دیاگیا اور کتاب میں اس کا فوٹو (۳۹۱) چھاپ دیا گیا۔ اسی طرح چودھویں صدی عیسوی میں کسی مسلمان یا عیسائی نے دو صاحبِ ریش بزرگوں کی تصویر بنائی اور ان کے سر پر پگڑی رکھی۔ ایک کو اونٹ پر بیٹھا ہوا دکھایا گیا، دوسرے کو گدھے پر ۔ گدھے کے مسافر کے نیچے لکھ دیا " عیسیٰ" اونٹ کے مسافر کے لیے    لکھ دیا " محمد  "یہ  تصویر بھی اسلامی تاریخ کے ایک قیمتی صفحہ کی حیثیت سے (۴۳۱) اس کی زینت بن گئی۔ مسلمانوں میں ایک گروہ پیدا ہو اجس نے دوسری قوموں کے اثر سے"وجد " کا نظریہ نکالا ۔ ایسے لوگوں کی ایک مجلس کا فوٹو لے لیا گیا (۴۱۱) اور دکھایا گیا کہ اسلام کے مطابق جب خدائی راگ چھیڑا جاتا ہے تو لوگوں کو وجد آجاتا ہے اور وہ کھڑے ہو کرناچنے لگتے ہیں۔

اسی طرح مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ بعض معاملات میں قرآن کے بیانات متضاد (contradictory) ہیں۔ مثال کے طور پر کبھی قرآن کہتا ہے کہ انسان کو عمل کی آزادی حاصل ہے، اور کبھی قرآن ہی یہ زور دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ انسان کے تمام معاملات پر خدا کا مکمل کنٹرول قائم ہے (۴۰۷) قرآن کی بابت مقالہ نگار نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے کسی ما قبل انسانی ماخذ کا ثبوت نہیں ملتا(۴۰۲) حتی کہ قرآن کی زبان بھی محمد کی اپنی روز مرہ کی زبان سے مختلف ہے (۳۹۸) پھر بھی معروف رواج کے مطابق انھیں تلاش ہے کہ سابق مذہبی کتابوں میں اس کا کوئی ماخذ مل جائے۔ وغیرہ

 یہ باتیں بلاشبہ ہمارے لیے    تکلیف دہ ہیں۔ مگر اس قسم کی جو کتا بیں چھپ رہی ہیں ، ان کا توڑ یہ نہیں ہے کہ ان کے خلاف ایک جلی کٹی تنقید لکھ کر چھاپ دی جائے یا ناشر اور مصنف کے نام احتجاجی تار روانہ کر دیے جائیں۔ اس قسم کی کوشش خدمت اسلام کا جھوٹا کریڈٹ لینے کے ہم معنیٰ ہے۔ ان کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ کچھ خبریں اخبار میں چھپ جائیں اور وہ بھی دینی نقصان میں مالی نقصان کے اضافہ کی قیمت پر ۔

کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ان کتابوں کا علمی بدل فراہم کیا جائے، ہمارے درمیان اعلیٰ سطح پر ایسے ادارے قائم ہوں جو خود علوم کو نئے ڈھنگ پر مرتب کر ڈالیں۔ موجودہ قسم کی اشتہاری کتابوں کے بجائے وہ علمی طرز کی کتابیں تیار کریں۔ اسلام کی قلمی خدمت کے کام کو مناظرہ بازی یا دوسرے لفظوں میں" مذہب کے پروپگنڈہ لٹریچر "کی سطح سے اٹھا کر تد وین علوم کی سطح پر پہنچا دیں۔ وہ انسانی ذہن کو تحقیق و تصنیف کے اس مقام پر پہنچ کر خطاب کریں جہاں سے دوسرے لوگ اس کو خطاب کر رہے ہیں۔ دوسری کوئی بھی صورت اس فتنے کے مقابلے کی نہیں۔

بہار شریف میں الرسالہ اور اسلامی مرکز کی کتا بیں مندرجہ ذیل پتہ سے حاصل کریں:

Mr Mohammad Afzaluzzafar, Advocate

Mohalla Katra, Bihar Sharif, Nalanda, Bihar

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom