غلط فہمی
ٹائمس آئی فاونڈیشن (Times Eye Research Foundation) کی طرف سے نئی دہلی میں ایک سیمنار ہوا۔ اس کی کارروائیاں ۶ ستمبر ۱۹۸۹ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں انجام پائیں ۔ اس سیمنار کا موضوع آنکھ کا عطیہ اور مذہب( (Eye Donation and Religion تھا۔ منتظمین کی دعوت پر راقم الحروف نے بھی وہاں ایک پیپر پیش کیا۔ اس کا موضوع تھا –––––– آنکھ کا عطیہ اور اسلام :
Eye Donation and Islam
سیمنار کی کارروائی کے دوران ایک سبق آموز واقعہ پیش آیا۔ پروگرام منیجر مسٹر اے پی آتری نے ایک سوال کے جواب میں اپنا ایک ذاتی قصہ بتایا ۔ انھوں نے کہا کہ کچھ دن پہلے میرے ایک پوتے کا انتقال ہو گیا۔ اس کی عمر تقریبا ً سات سال تھی۔ جب لڑکے کی آخری رسوم ادا کرنے کا وقت آیا تو مسٹر آتری کے دوست اور رشتہ دار ان کے گھر پر جمع ہوئے ۔ ان کے ایک دوست نے لڑکے کے جسم کو دیکھ کر کہا کہ آتری جی، آپ لوگوں سے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد اپنی آنکھیں دان میں دو۔ مگر آپ نے خود اپنے پوتے کی آنکھ دان نہیں کی ۔ اس کی آنکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ویسی کی ویسی ہی ہیں ۔
یہ اعتراض محض غلط فہمی پر مبنی تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ لڑکے کی موت کے بعد مسٹر آتری نےاسپتال کو ٹیلی فون کیا۔ وہاں سے ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر مع سازو سامان آیا ۔ اس نے نہایت صفائی کے ساتھ اس کی آنکھیں نکالیں اور پھر حسب قاعدہ دونوں آنکھوں میں پلاسٹک کی مصنوعی آنکھ لگادی۔اس واقعہ سے لاعلم ہونے کی بنا پر مسٹر آتری کے دوست کو غلط فہمی ہوئی۔ بچہ کے چہرہ پر انھوں نے جس آنکھ کو دیکھا وہ مصنوعی آنکھ تھی ، اس کی اصل آنکھ تو اس سے پہلے عطیہ میں دی جا چکی تھی۔
اکثر بد گمانی محض غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی کے بارے میں غلط رائےقائم نہ کرے ۔ اور اگر اس کو رائے قائم کرنا ہے تو پہلے تحقیق کرے۔ تحقیق سے پہلے کسی کے بارے میں بری رائے قائم کرنا جائز نہیں۔