اسلام کی تصدیق
امریکی خواتین میں آج کل ایک نئی تحریک ابھر رہی ہے جس کو تحریک ِنسواں ثانی (Women's Movement II) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علم برداروں کے دعوے کے مطابق ، یہ قدیم تحریک نسواں ہی کی توسیع ہے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ قدیم تحریک نسواں ایک غیر حقیقی تحریک تھی، اس لیے اس پر
نظر ِثانی کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ایک مبصّر نے بجا طور پر اس کو تحریک میں ایک خاموش تبدیلی (quiet shift) قرار دیا ہے۔ امریکی ماہنامہ اسپان (Span) جولائی ۱۹۸۹ ء میں اس تحریک کا تعارف شائع ہوا ہے۔ اس میں بتایا گیاکہ موجودہ امریکہ کی عورتیں بد حالی کا شکار ہیں۔ کام کرنے والی عورتوں کی دو تہائی تعداد۱۳۰۰۰ ڈالر سالانہ سے کم کماتی ہے جو امریکہ میں زندگی گزارنے کے لیے ناکافی ہے۔ حمل، بچوں کی نگہداشت اور دوسرے نسوانی مسائل نے عورت کو سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ واضح ہو کہ امریکہ میں ۲۵- ۴۵ سال کے درمیان کی عورتوں کی ۷۰ فی صد تعداد دفتروں اور کار خانوں میں کام کرتی ہے۔ مگر عورتوں کو عام طور پر مردوں سے کم تنخواہ ملتی ہے۔ بڑے عہدےانہیں حاصل نہیں۔
تحریک نسواں اول کا سارا زور اس پر تھا کہ عورت اور مرد ہر اعتبار سے برابر ہیں۔ عورتوں کو اگر آزادی مل جائے تو وہ مردوں ہی کی طرح اپنی زندگی کی تعمیر کرسکتی ہیں۔ عورتوں کو مکمل آزادی مل گئی۔ مگر اب معلوم ہوا کہ عورت کو آزادی کے ساتھ تحفظ (protection) کی ضرورت ہے۔ صرف اپنی ذاتی بنیاد پر وہ کھڑی نہیں ہو سکتی۔
تحریک نسواں دوم کی ایک خاتون لیڈر ٹارو ہلم (Tarr-Whelam) نے کہا کہ ––––– یہ بات واضح ہے کہ عورتوں کے حقوق حاصل کرنے کے لیے اب ریاستیں ہی ہمارے لیے عمل کا مقام ہیں :
But it is clear that to win women's rights, the states
are now the place for action (p. 37).
مغربی عورت نے پہلے برابری کا حق مانگا تھا۔ اس کو برابری کا حق مل گیا۔ اب اس کو معلوم ہوا کہ صرف برابری کا حق کافی نہیں۔ اس کو اسی کے ساتھ مزید سپورٹ کی ضرورت ہے۔ وہ گھریلو قوّام کو اپنا قوّام بنانےپر راضی نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کو حکومت کو اپنا قوّام بنانا پڑا۔
اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ زمانہ آج اسلام کے موافق سمت میں جا رہا ہے۔ انسان کے تجربات اس کو اس طرف لے جار ہے ہیں کہ وہ یہ ماننے پر مجبور ہو جائے کہ خدا کا قانون ہی زندگی کا صحیح قانون ہے۔
تجربہ کے بعد
ایک امریکی خاتون لنڈا برٹن (Linda Burton) نے اپنے خاندانی تجربات پر ایک کتاب لکھ کر شائع کی ہے جس کا نام ہے ––––– تمہارے جیسی ایک تیز عورت گھر پر رہ کر کیا کام کرتی ہے :
What's a Smart Women Like You Doing at Home?
مذکورہ خاتون کی کہانی کا خلاصہ ، ان کے لفظوں میں یہ ہے کہ میرا گھر پر رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں ایک کمپنی میں پورے وقت کی ملازم تھی۔ ۳۳ سال کی عمر میں میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کو سنبھالنے میں مجبورانہ طور پر مجھے اپنی ملازمت چھوڑنی پڑی۔ یہاں تک کہ میرے لیے معاشی مسائل پیدا ہو گئے۔اور میں نے دوبارہ باہر کا کام کرنا شروع کر دیا۔
میں اپنے بچے کے لیے شام کا وقت اور ہفتہ کی چھٹی کا دن دے سکتی تھی۔ مگر وہ ناکافی تھا۔ اب میں نے اس کے لیے تحفظ اطفال کا ایک ادارہ تلاش کیا۔ مگر ایک مہینہ کے بعد ہی اس کو ناقص سمجھ کر مجھے چھوڑ دینا پڑا۔ میں ملازمت ترک کر کے دوبارہ گھر پر رہنے لگی تاکہ بچے کی دیکھ بھال کر سکوں ۔ میں دو سال تک کسی زیادہ بہتر ادارہ کی تلاش میں رہی۔ یہاں تک کہ میرے یہاں دوسرا بچہ پیدا ہو گیا۔
میں نے دوبارہ ایک ملازمت کرلی اور اپنے دونوں بچوں کو گھر یلو قسم کے تحفظ اطفال کے ادارہ میں ڈال دیا۔مگر اس کی کارکردگی پر مجھے اطمینان نہ ہو سکا۔آخر کار میں نے خود اپنے گھر پر انفرادی خدمات حاصل کیں ۔میں نے پایا کہ آپ خواہ کتنا ہی قاعدہ قانون بنائیں ۔ کتنا ہی زیادہ رقم خرچ کریں مگر یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کے لیے محبت کر سکے۔
In time, my search for child care taught me a critical lesson: no matter how many licences we issue, how many guidelines we establish or how much money we pay, it is impossible to have quality controls over the capacity of one human being to love and care for another (p. 94).
میں ایک ایسا شخص چاہتی تھی جو نرم مزاج اور محبت کرنے والا ہو ۔ جو مستعد اور کسی قدر پر مزاح ہو۔ ایک زندہ شخص جو میرے بچوں کی تخلیقیت کو بڑھائے ، وہ ان کو تفریح کے لیے باہر بھی لے جائے۔ وہ ان کے تمام چھوٹے چھوٹے سوالوں کا جواب دے۔ وہ ان کو میٹھی نیند سلائے۔ آہستہ آہستہ اور تکلیف دہ طور پر میں اس حیرت ناک واقعیت تک پہونچی کہ جس شخصیت کو میں برسوں سے تلاش کر رہی تھی وہ میری اپنی ناک کے نیچے موجود ہے، یعنی میں خود ، یہ ہے وہ کام جو میرے جیسی تیز عورت اپنے گھر کے اندر کر رہی ہے :
I had wanted someone who was loving and tender, with a sense of humour and an alert, lively manner somebody who would encourage my children's creativity, take them on interesting outings, answer all their little questions, and rock them to sleep, Slowly, painfully, I came to a stunning realization: the person I was looking for was right under my nose. I had desperately been trying to hire me. And that's what a smart woman like me is doing at home. Reader's Digest, August, 1988)
مذہب کی تعلیم کے تحت معاشرت کا یہ اصول مقرر کیا گیا تھا کہ مرد کمائے اور عورت گھر کی دیکھ بھال کرے۔ اس طرح تقسیم کار کے اصول پر دونوں زندگی کا کاروبار چلائیں ۔
یہ ایک انتظامی بندو بست تھانہ کہ کسی کو بڑا درجہ اور کسی کو چھوٹا درجہ دینا ۔ مگر جدید دور میں "آزادی نسواں " کی تحریک اٹھی جس نے اس طریقہ کو عورت کی تصغیر کے ہم معنی قرار دیا۔ اور یہ نعرہ دیا کہ دونوں صنفوں کو کسی تقسیم یا حد بندی کے بغیر ہر کام کرنا چاہیے۔ یہ نظریہ اتنا پھیلا کہ عورتوں کی ایک پوری نسل گھر سے باہر نکل پڑی ۔
نام نہا د مساوات کے اس تجربہ پر اب تقریباً سو سال بیت چکے ہیں۔ خاص طور پر مغربی دنیا میں اس کا تجربہ آخری ممکن حد تک کیا گیا ہے۔ مگر ان تجربات نے اس کی افادیت ثابت کرنے کے بجائے صرف اس کا نقصان ثابت کیا ہے۔ موجودہ مغربی معاشرہ میں مختلف انداز سے مسلسل اس کی مثالیں سامنے آرہی ہیں ۔ انھیں میں سے ایک مثال وہ ہے جس کو اوپر نقل کیا گیا ۔
مذہب نے مرد اور عورت کے عمل کے درمیان یہ تقسیم رکھی تھی کہ مرد معاش فراہم کرے،اور عورت نئی نسل کی اخلاقی تعمیر کرے :
Man the bread-earner, woman the character-builder
جدید تہذیب نے اس مذہبی تعلیم سے انحراف کیا۔ مگر جدید تہذیب کے تجربات نے صرف یہ کیا ہے کہ اس نے مذہب کی تعلیمات کی صداقت کو از سرِ نو مزید قوت کے ساتھ ثابت کر دیا ہے۔
عورت جنگ میں
روسی زبان میں ایک کتاب عورتوں کے بارے میں چھپی ہے جس کا انگریزی ترجمہ ماسکو سے شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کی تفصیل یہ ہے :
S. Alexiyerich, War's Unwomanly Face, Progress Publishers, Moscow
دوسری عالمی جنگ (۱۹۴۱) چھڑی تو روسی حکومت نے اپنے شہریوں سے جذباتی اپیلیں کیں اور مادر وطن (Motherland) کو بچاؤ کا نعرہ دیا۔ اس سے متاثر ہو کر جو روسی نوجوان فوج میں بھرتی ہوئے ان میں ۸ لاکھ (800,000) عورتیں تھیں جن کی عمریں ۱۵- ۱۶ سال کے درمیان تھیں ۔ مذکورہ کتاب انھیں خواتین سے متعلق ہے۔ خاتون مصنف نے اپنی ۴ سالہ تحقیق کے دوران ایک سو شہروں کا سفر کیا ، انھوں نے دو سو شریک ہونے والی عورتوں کا انٹرویو لیا۔
یہ کتاب مذکورہ عورتوں کے بارے میں بہت سبق آموز معلومات پیش کرتی ہے۔ مثلاً کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جنگ کے بعد اکثر عورتوں نے اس حقیقت کو چھپانا شروع کیا کہ وہ جنگ میں شریک ہوئی تھیں۔ "ہم نے چاہا کہ دوبارہ عام لڑکیوں کی طرح ہو جائیں ، شادی کے قابل لڑکیاں":
We wanted to become ordinary girls again. Marriageable girls.
کتاب کی مصنف جنگ میں شریک ہونے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون سے ملی جن کا نام و یرا سفرمونا ڈوڈوا (Vera Safrmovna Davdova) تھا ۔ انھوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات کتاب کے بیان کے مطابق، یہ تھی کہ وہ یقین رکھتی ہیں کہ جنگ میں عورتوں کا رد عمل مکمل طور پر مردوں سے مختلف تھا۔ مردوں کا فیصلہ کسی تجربہ کے بارے میں زیادہ وقتی اور مبنی بر حقیقت ہوتا تھا۔ جب کہ عورتیں بہت زیادہ جذباتی انداز میں اپنا رد عمل ظاہر کرتی تھیں :
She believes that women reacted to war in a completely different way from men. The men were more matter-of-fact and casual about the experience whereas the women reacted in an overwhelmingly emotional manner.
موجودہ زمانے میں عورتوں کی فطرت اور ان کی پیدائشی صلاحیت کے بارے میں کثرت سے تحقیقات کی گئی ہیں۔ عورت کی صنف کو خالص سائنسی اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تحقیقات کے ذریعہ جو باتیں معلوم ہوئی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر عورت کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی تائید کرتی ہیں ۔
جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ عورت پیدائشی طور پر ذو حس ہے۔ وہ مرد کے مقابلہ میں جذباتی (Emotional) واقع ہوئی ہے۔ یہ دریافت واضح طور پر بتاتی ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ایسے شعبوں میں داخل کرنا درست نہیں جہاں ٹھنڈے ذہن کے تحت فیصلہ کرنے کی ضرورت ہو ۔ جہاں حالات کا تاثر قبول کیے بغیر رائے قائم کرناپڑے ۔ جہاں "مردانگی "کی ضرورت ہونہ کہ "نسوانیت" کی۔
سیاست کا شعبہ ، جنگ کا میدان بین اقوامی معاملات ، عدالتی قضیے ، بڑے بڑے صنعتی منصوبے ، اس طرح کے تمام شعبوں میں ذہنی ڈسپلن اور غیر جذباتی فیصلوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ ان امور میں وقتی محرکات سے او پر اٹھ کر رائے قائم کرنا پڑتا ہے۔ اور ایسے تمام مواقع پر عورتیں اپنی فطری جذباتیت کی بنا پر غیر موزوں ثابت ہوتی ہیں۔ جب کہ مرد نسبتاً غیر جذباتی ہونے کی بنا پر زیادہ بہتر رد عمل پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
عورت اور مرد کا یہی پیدائشی فرق ہے جس کی بنا پر اسلام میں دونوں کا میدان کار الگ الگ رکھا گیا ہے۔ یہ درجہ کے فرق کی بات نہیں ہے بلکہ عمل کے میدان میں فرق کی بات ہے۔ یہ تفریق سائنسی تحقیقات کے عین مطابق ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں نام نہاد آزادیٔ نسواں کے علمبرداروں کا طریقہ غیر سائنسی ہے نہ کہ اسلام کا طریقہ ۔