ایک پروگرام
ڈاکٹر ایم سی شرما (عمر ۴۱ سال) سے ۱۹ جولائی ۱۹۸۹ کو ملاقات ہوئی ۔ وہ آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی پیدائش چورو (راجستھان )میں ہوئی ۔ اسکول میں طالب علمی کے زمانے میں وہ آرایس ایس سے وابستہ ہوئے ۔ وہ اس کے ایک کٹّر ممبر تھے ۔ ان کا خیال یہ ہو گیا کہ ہندستان کی تمام مصیبتوں کے ذمہ دار گاندھی تھے ۔ وہ گاڈسے کو ہیرو کے روپ میں دیکھنے لگے جس نے ۱۹۴۸ میں گاندھی جی کو گولی مار کر قتل کر دیا۔
وہ اپنے انھیں انتہا پسندانہ خیالات پر تھے کہ ۱۹۷۵ میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ہندستان میں ایمر جنسی نافذ کی۔ آر ایس ایس کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں میں سے ایک ڈاکٹر شرما بھی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جیل کی نظر بندی کے زمانے میں ان کے پاس کوئی کام نہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے مہاتما گاندھی کا مطالعہ شروع کر دیا ۔گاندھی جی کی کتابیں جیل میں آسانی کے ساتھ دستیاب تھیں ۔ اس لیے مطالعے کوجاری رکھنے میں انھیں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
انھوں نے بتایا کہ اس مطالعے نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا ۔ جب میں جیل سے نکلا تو میں ایک بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔ اب میرا خیال یہ ہے کہ گاندھی اس ملک کے سب سے بڑے رہنما تھے ۔ ساور کر جیسے لوگ جدید ہندستان کے رہنما نہیں بن سکتے تھے۔ اس کام کو کرنے کے لیے گاندھی اور نہرو جیسے لوگ درکار تھے۔
ڈاکٹر شرما کی روداد سننے کے بعد مجھے یہ خیال آیا کہ ہندستان میں کرنے کا ایک ضروری کام یہ ہے کہ شہر سے الگ کسی پُر سکون مقام پر ایک مرکز بنایا جائے ۔ یہاں اسلام کو سمجھنے اور اس کا مطالعہ کرنے کے لیے ہر قسم کی سہولتیں جدید معیار پر موجود ہوں۔ اسی کے ساتھ وہاں قیام کا اچھا بندوبست ہو۔ اس کے بعد تعلیم یافتہ ہندو نوجوانوں کو یہاں بلایا جائے ، اور چند دن یا چند ہفتہ ٹھہرا کر انھیں اسلام سے واقف کرانے کی کوشش کی جائے ۔ اگر ایسا مرکز قائم کیا جاسکے تو اس سے وہی فائدہ زیادہ بڑے پیمانہ پر حاصل ہوگا جو ڈاکٹر شرما کے حق میں جیل کا ہوا۔
اگر ایسا مرکز قائم ہو تو وہ ہندو نوجوانوں کو اسلام سے قریب کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گا یہاں تک یہ بھی ممکن ہے کہ مذکورہ مرکز اس ملک میں اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا دروازہ کھول دے۔