پیغمبروں والا کام

دعوت الی اللہ کا کام پیغمبر کی غیر موجودگی میں پیغمبر والا کام انجام دینا ہے۔قدیم زما نےمیں دعوت کا کام پیغمبر اور ان کے ساتھی انجام دیتے تھے۔ اب نبی کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لیے اب نبی کی امت کو نبی کی نمائندگی میں یہ کام انجام دینا ہے۔یہ کام اسی نہج (method) پر انجام دینا ہے، جس نہج پر پہلے پیغمبر انجام دیتے تھے۔ یہ اصول قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے کہا گیا ہے: وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)۔ یعنی اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے سے تم کو انذار کروں اور وہ بھی جن کو یہ پہنچے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی نے درست طور پر لکھا ہے - عام طور پر مفسرین نے وَمَنْ بَلَغَ کو ضمیرِ منصوب پر معطوف مانا ہے یعنی یہ قرآن اس لیے مجھ پر وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور ان سب کو بیدار و ہوشیار کروں جن تک یہ پہنچے۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ ضمیر متکلم پر معطوف ہے۔ یعنی میں اس کے ذریعے سے تم کو خبردار کروں اور جن کو یہ پہنچے وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر دوسروں کو اس کے ذریعے سے خبردار کریں۔(تدبر قرآن، سورہ الانعام، آیت 19)۔

یہ امتِ محمدی کی لازمی ذمے داری اور یہ ختمِ نبوت کا لازمی تقاضا ہے۔ کیوں کہ ختمِ نبوت کے بعد نبی کی شخصیت کا دور ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں تک دعوت کا تعلق ہے، اس کو بدستور قیامت تک جاری رہنا ہے۔ یہ امتِ محمدی کی ایسی ذمے داری ہے، جو کسی حال میں موقوف نہیں ہوتی۔ اس ذمے داری کا ذکر قرآن میں مختلف الفاظ میں کیا گیا ہے۔ مثلاً امت وسط، شہادت علی الناس، انذار، ابلاغ، دعوت الی اللہ، تبلیغ ما انزل اللہ، وغیرہ۔ اس اصول کے مطابق، خاتم النبیین کی امت قیامت تک کے لیے داعی کی حیثیت رکھتی ہے، اور ختمِ نبو ت کے بعد پیدا ہونے والے تمام انسان اس کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom