عالمی تائید اسلام
اللہ رب العالمین کا ایک منصوبہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:یُرِیدُونَ أَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَى اللَّہُ إِلَّا أَنْ یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ (9:32)۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر ماننے والا نہیں، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس آیت میں نور (روشنی)سے مراد دینِ توحید ہے۔ قدیم تاریخ بتاتی ہے کہ اہل شرک نے ہرممکن کوشش کی کہ دینِ توحید کو لوگوں کا دین نہ بننے دے۔ اہل شرک اپنے وقت کے اہل اقتدار سے مل کر تشدد کی حد تک دینِ توحید کے مخالف بن گئے۔ اللہ نے چوں کہ اس دنیا کو آزادی کے اصول پر بنایا ہے، اس لیے اللہ خود اپنے منصوبے کے مطابق، ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ وہ لوگوں کا ہاتھ پکڑ لے۔
اللہ نے اس معاملے میں مینجمنٹ کا طریقہ اختیار کیا۔ اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج کیا کہ وہ تدریج کے ساتھ معاونِ توحید تاریخ بن گئی۔ جب کہ اس سے پہلے وہ مخالفِ توحید تاریخ بنی ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لیے اللہ رب العالمین نے انسان کی آزادی کو برقرار (maintain) رکھتے ہوئے تاریخ میں ایک عمل (process) جاری کیا۔یہ پراسس اپنے آخری نتیجے کے طور پر یہ تھا کہ انسان کی آزادی مکمل طور پر باقی رہے، اسی کے ساتھ ایسے امکانات پیدا ہوجائیں، جن کو اویل (avail) کرکے اہلِ توحید آزادانہ طور پر دینِ توحید کو سارے عالم میں پھیلادیں۔اس آیت میں اتمامِ نور کا مطلب ہے— دنیا میں دورِ شرک کے بجائے، توحید کا دور لانا۔
یہ ایک عظیم خدائی منصوبہ تھا۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔یعنی اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں دورِ توحید کا پراسس اتنے ہمہ گیر انداز میں چلے گا کہ نہ صرف اہلِ ایمان، بلکہ غیر اہلِ ایمان بھی اس تاریخی عمل (historical process) کا حصہ بن جائیں گے۔ مگر خدائی منصوبے کے مطابق، اس تاریخی انقلاب کو اس طرح نہیں لانا تھا کہ انسانی آزادی کو موقوف کردیا جائے۔ بلکہ یہ کام منصوبہ ٔالٰہی کے مطابق، اس طرح ہونا تھا کہ انسانی آزادی بدستور برقرار رہے، اور اسی کے ساتھ تاریخ میں ایک ایسا طاقتور پراسس جاری ہو، جو اس طرح منتہی(culminate) ہو کہ اس کی تکمیل پر دنیا میں وہ دور آئے جو اپنے ساتھ مذہبی آزادی، عالمی ذرائع ابلاغ وغیرہ لائے، جس کے نتیجے میں کسی بھی انسان کے لیے رائے کا اظہار، اور مذہب کی تبلیغ وغیرہ آسان ہوجائے۔ مگر تاریخ میں یہ انقلاب باعتبار مواقع (opportunities) آیا۔ یعنی اہلِ توحید کے لیے یہ موقع کھل گیا کہ اگر وہ چاہیں تو حکیمانہ منصوبے کے ذریعہ اس امکان کو پہچانیں، اور اویل (avail)کریں۔
غالباً یہی وہ حقیقت ہے، جس کی طرف ایک حدیث میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: کَانَ الرَّجُلُ فِیمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ فِی الأَرْضِ، فَیُجْعَلُ فِیہِ، فَیُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَیُوضَعُ عَلَى رَأْسِہِ فَیُشَقُّ بِاثْنَتَیْنِ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الحَدِیدِ مَا دُونَ لَحْمِہِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ، وَاللَّہِ لَیُتِمَّنَّ ہَذَا الأَمْرَ، حَتَّى یَسِیرَ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لاَ یَخَافُ إِلَّا اللَّہَ، أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِہِ، وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3612)۔ یعنی تم سے پہلی امتوں میں سے کسی کے لیے (توحید اختیار کرنے پر )گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں ڈال دیا جاتا۔ پھر اس کے سر پر آرا رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا۔ لوہے کے کنگھے اس کے گوشت میں دھنسا کر اس کی ہڈیوں اور پٹھوں پر پھیرے جاتے پھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتا۔ خدا کی قسم یہ امر بھی تکمیل کو پہنچے گا اوریہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا،اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہو گا، یا بھیڑیے کا (خوف ہو گا) اپنی بکریوں پر، لیکن تم لوگ جلدی بازی کررہے ہو۔
موجودہ زمانے میں یہ تاریخ اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔ اب اہلِ توحید کو صرف ایک حکمت (wisdom) کو جاننا ہے۔ وہ یہ کہ وہ جو کچھ کریں، پوری طرح پرامن (peaceful) انداز میں کریں۔ وہ کسی حال میں تشدد (violence) کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ جب تک وہ پر امن رہیں، سارے مواقع ان کے لیے کھلے رہیں گے۔ وہ صرف اس وقت ان سے چھن سکتے ہیں، جب کہ وہ اس راز کو نہ سمجھیں، اور تشدد کا طریقہ اختیار کرلیں۔
حدیث میں تائیدِ دین کی بات کسی محدود معنی میں نہیں ہے۔بلکہ نہایت وسیع معنی میں ہے۔ مثال کے طور پر رسول اللہ کے زمانے میں کعبہ میں تمام قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر روزانہ وہاں لوگوں کا ایک بڑا مجمع اکٹھا ہوتا تھا۔پیغمبرِ اسلام نے اس اجتماع کو آڈینس (audience) کے روپ میں دیکھا، اور مکہ میں تیرہ سال تک ان مواقع (opportunities) کو دعوتی مقصد کے لیے اویل کرتے رہے۔ جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانے میں رسول اللہ کو وہ تمام افراد ملے، جن کو اجلّۂ صحابہ کہا جاتا ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ وہ ابدی معنوں میں ایک سنتِ رسول ہے۔ ہر زمانے میں اس کو اپلائی (apply) کیا جاسکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی پوری طرح مثبت سوچ والا ہو، اور کسی بھی قسم کی منفی سوچ کے بغیر حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مثلاً موجودہ زمانے میں ایک کلچر رائج ہوا ہے، جس کو اجتماع کلچر (gathering culture) کہہ سکتے ہیں۔ کہیں کانفرنس کے نام پر، کہیں ٹورزم کے نام پر، کہیں میٹنگ کے نام پر، کہیں نمائش (exhibition) کے نام پر، کہیں جشن کے نام پر،کہیں فیسٹیول کے نام پر،کہیں بک فیر (book fair)کے نام پر، وغیرہ۔ یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ ہر جگہ اور دنیا کے ہر حصے میں تقریبا ًروزانہ وہ بڑے پیمانے پر ہوتے رہتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو مکہ میں پیغمبرِ اسلام کو "زیارتِ اصنام" کے نام پرجو موقع ملا تھا، اب وہ ہزاروں گنا زیادہ بڑے پیمانے پر ہر جگہ موجود ہے۔ اس طرح گویا داعی اور مدعو کی دوری ختم ہوچکی ہے۔ان اجتماعات کو دعوت کے لیے استعمال کرنے کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ لوگ تشدد سے دور رہیں، اور پرامن منصوبے کے ذریعے اس کو استعمال کریں۔