دورِ شخصیت، دورِ استدلال
قدیم زمانہ شخصیت کی عظمت (personality cult) کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ عقلی استدلال کا زمانہ (age of reason) ہے۔ قدیم زمانے میں ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص جس کو کسی وجہ سے بڑا مان لیا جائے۔ لوگ اس کی باتوں کو اعتقادی طور پر درست سمجھتے تھے، اور عقل کے استعمال کے بغیر اس کی پیروی کرتے تھے۔ اب یہ دور ختم ہوگیا۔ موجودہ زمانے میں اس طرح کی شخصیتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ شخصی صلاحیت کے اعتبار سے تو اب بھی لوگ پیدا ہورہے ہیں، لیکن زمانے کے زیرِاثر اب کسی شخص کو اکابر کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔
سائنسی انقلاب کے بعد دنیا میں عقلیت کا دور (age of reason) آیا ہے۔ عقلیت کا مطلب عقل پرستی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہے عقلی استدلال کی بنیاد پر کسی بات کو ماننا،اور کسی بات کو نہ ماننا۔ آج وہی تحریک کامیاب تحریک ہے جو آج کے فکری مستویٰ اور اور آج کے مسلمہ استدلال کی سطح پر اپنے نظریے کی تبلیغ کرے۔ اس کے برعکس جو تحریک اکابر اور شیوخ کے حوالے کی بنیاد پر شروع کی جائے، وہ تحریک آج کے معیار کے مطابق سرے سے تحریک ہی نہیں۔
قدیم زمانےمیں شخصیت پرستی کی بنا پر عقلی غور وفکر کا ارتقا (development)نہیں ہوا۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک یہ صورتِ حال باقی رہی۔ اسلام نے پہلی بار عقلی غورو فکر کا آغاز کیا۔ قرآن میں بار بار اس قسم کے الفاظ آئے ہیں - تدبر، تعقل، تفکر، توسم، تذکر، وغیرہ۔ حتیٰ کہ خود قرآن کے بارے میں کہا گیا ہے:کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔
لیکن بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر عملاً عقلی غور و فکر کا خاتمہ ہوگیا۔ دین میں عقلی غور وفکر کو برا سمجھاجانے لگا۔ حدیث میں عمومی معنوں میں آیا تھا:طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ(ابن ماجہ،حدیث نمبر 224)۔ لیکن بعد کے زمانے میں طلبِ علم سے مراد صرف علم دین کی طلب قرار پایا۔
اس کا سبب بعد کے زمانے میں ہونے والا ماس کنورژن (mass conversion)تھا۔ یعنی بعد کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ اس طرح امتِ مسلمہ میں نو مسلموں کی تعداد اچانک بہت زیادہ بڑھ گئی۔ یہ لوگ اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) کو لے کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ کثرتِ تعداد کی بنا پر ان کی فکری تربیت ممکن نہ ہوسکی۔ یہی نوواردین ہیں، جنھوں نے اپنے قدیم ذہن کی بنا پر عقلی غور و فکر کو اسلام کے خلاف قرار دیا۔یہ ذہن اتنا زیادہ پختہ ہوگیا کہ وہ آج تک جاری ہے۔ اس سے کسی حد تک مستثنیٰ صرف وہ مسلمان ہیں، جنھوں نے موجودہ زمانے میں سیکولر اداروں میں تعلیم پائی۔
عباسی دور میں ایک طبقے کے اندر عقلی غور و فکر کا آغاز ہوا، لیکن وہ یونانی فلسفے کے زیرِ اثر ہوا تھا، اس لیے اسلام کے اصول کے اعتبار سے صحیح منہج پر قائم نہ تھا۔ اس لیے اُس وقت کے علماء اس سے متوحش ہو کر اس کے خلاف ہوگئے۔ علماء نے ان لوگوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ کہا جانے لگا کہ من طلب العلم بالکلام تزندق (البدایۃ و النہایۃ،10/194)۔ جس نے کلام کے ذریعے علم طلب کیا، وہ زندیق ہوگیا۔
اکیسویں صدی میں وہ وقت آگیا ہے، جب کہ اسلام میں عقلی غور و فکر کا آغاز کیا جائے۔ عقلی غور و فکر دین سے انحراف کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کو عقلی بنیاد (rational basis) پر پیش کیا جائے۔ اہلِ عقل کے فکری مستویٰ پر انھیں دین کو پہنچایا جائے تاکہ ان کا ذہن ایڈریس ہو، اور وہ اسلام پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرسکیں۔راقم الحروف کی کتاب مذہب اور جدید چیلنج اسی قسم کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ مختلف زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ مثلاً عربی زبان میں الاسلام یتحدیٰ، اور انگریزی زبان میں گاڈ ارائزز، وغیرہ۔
کچھ مسلمانوں نے اس مقصد کے نام پر ایک تحریک شروع کی، جس کو وہ إسلامیَّة المعرفة (Islamization of knowledge) کہتے ہیں۔ مگر یہ تحریک صحیح خطوط پر نہیں۔ اس معاملے میں اصل کام اسلام کو جدید علم کی بنیاد پر پیش کرنا ہے، نہ کہ جدید علم کو اسلامائز کرنا۔