پرامن طریق کار

پرامن اسلامی طریقِ کار کیا ہے، اس کی ایک کامیاب مثال کشمیر کی تاریخ میں پائی جاتی ہے۔ کشمیر کو عام طور پر لوگ اس کے قدرتی حسن کی وجہ سے جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس سے بھی زیادہ بڑی چیز موجود ہے۔ یہ اسلامی طریقِ کار کا وہ نمونہ ہے جو میر سید علی ہمدانی (1314-1384 ء) کی زندگی میں ملتا ہے۔ موصوف نے، جن کو کشمیری عام طورپر ’’امیر کبیر‘‘ کہتے ہیں، اپنے عمل سے ایک عظیم قابل تقلید نمونہ قائم کیا ہے، جس کی مثال حالیہ صدیوں میں کم ملے گی۔ کشمیر اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے اگر جنت نظیرہے تو اپنے تاریخی نمونے کے ذریعہ وہ ہم کو اسلام کے طریقِ دعوت کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال (1877-1938 ء) نے امیر کبیرکی بابت کہا تھا:

دستِ او معمارِ تقدیر امم

امیر کبیرکی بابت یہ الفاظ صد فی صد درست ہیں۔ موجودہ مسلم کشمیر زیادہ تر امیر کبیرہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مگر امیر کبیرنے یہ کام ’’شمشیر وسناں ‘‘ کے ذریعہ نہیں کیا، انھوں نے یہ کامیابی ’’شمشیر وسناں ‘‘ کو ترک کرکے حاصل کی۔ امیر کبیر کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ —اسلام کو زندہ کرنا چاہتے ہو تو ٹکراؤ کے ذہن کو ہمیشہ کے لیے ختم کردو، مذہبی اور سیاسی جھگڑے کھڑے کرنے سے مکمل پرہیز کرو۔ اس کے بعد تم کو خدا کی نصرتیں ملیں گی اور اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی حاصل ہوگی۔

میر سید علی ہمدانی ایران کے رہنے والے اور تیمور لنگ (1335-1405ء) کے ہم عصر تھے۔ شاہ تیمور ان سے کسی بات پر ناراض ہوگیا اور ان کو ایران سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اب امیر کبیرکے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ تیمور لنگ کے خلاف جہاد کا نعرہ لگائیں اور ایران میں حکومتِ صالحہ قائم کرنے کی جدوجہد کریں، خواہ اس کے نتیجہ میں ان کو شہید ہوجانا پڑے۔ مگر امیر کبیر نے اِس قسم کے سیاسی تصادم سے پرہیز کیا۔ وہ اپنے چالیس ساتھیوں کو لے کر اپنے وطن ہمدان سے نکل پڑے۔ افغانستان ہوتے ہوئے یہ قافلہ 781 ھ میں کشمیر پہنچا۔امیر کبیراس سے پہلے 762ھ میں اپنی سیاحت کے دوران کشمیر کو دیکھ چکے تھے۔

کشمیر پہنچ کر دوبارہ موقع تھا کہ یہاں سے شاہ تیمور کے خلاف سیاسی تحریک چلائی جائے۔ تیمور کے معاصرین میں ایسے لوگ تھے جو بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر تیمورسے بغض رکھتے ـتھے۔ امیر کبیر ان کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر تیموری اقتدار کو ختم کرنے کی مہم جاری رکھ سکتے تھے، مگر امیر کبیرنے اس قسم کی کسی بھی کارروائی سے مکمل پرہیز کیا۔ اسی طرح قیادت کا ایک اور راستہ امیر کبیرکے لیے پوری طرح کھلا ہوا تھا۔ یہ اس وقت کے کشمیری مسلمانوں کی اقلیت کے معاشی اور سماجی حقوق کا مسئلہ تھا۔ اس وقت کشمیر میں اگر چہ ایک مسلم خاندان کی حکومت تھی، مگر کشمیری مسلمان، ریاست میں ایک کمزور اور غریب اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے، حتی کہ کہا جاتا ہے کہ ان سے جبراً بت خانوں کے نذرانے وصول کیے جاتے تھے۔ امیر کبیران کی طرف سے حقوق طلبی کی مہم چلا کر فی الفور مسلمانوں کے قائد بن سکتے تھے، مگر امیر کبیرنے اس قسم کی ’’ملی سیاست‘‘ سے بھی کوئی سروکار نہ رکھا۔

اسی طرح امیر کبیرکے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ ’’انسانیت‘‘ کے پیامبر بن کر اٹھیں، اور ریاست کے مختلف فرقوں کو امن کے ساتھ رہنے کا وعظ سنائیں۔ ایسا کرکے وہ بہت جلد دونوں فرقوں کے درمیان ہر دل عزیزی اور مقبولیت حاصل کرسکتے تھے۔ کیوں کہ ہر وہ تحریک لوگوں کو بہت پسند آتی ہے جس میں حق وباطل کا مسئلہ چھیڑے بغیر رواداری (tolerance)اور میل جول کا اپدیش دیاگیا ہو، جس میں کوئی زد اپنے اوپرپڑتی ہوئی محسوس نہ کرے۔ مگر اس قسم کی تحریک جلسوں اور تقریروں کی سطح پر خواہ کتنی ہی کامیاب نظر آئے، عملی نتیجہ کے اعتبار سے وہ ہمیشہ بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کام کا اسلامی دعوت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کا کام، اپنی ظاہری خوش نمائی کے باوجود، صرف مسائلِ دنیا کی طرف متوجہ کرنے کا کام ہے، جب کہ اسلامی دعوت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مسائلِ آخرت کی طرف متوجہ کیا جائے۔

امیر کبیرکا پروگرام نہ شاہ تیمور کے خلاف رد عمل کے طورپر بنا، اور نہ کشمیری مسلمانوں کے وقتی حالات سے متاثر ہو کر۔ اس وقت کشمیر میں ایک مسلم راجہ سلطان قطب الدین کی حکومت تھی۔ اس کے اندر بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں موجود تھیں۔ آپ نے سلطان کو ناصحانہ انداز کے خطوط بھیج کر اس کو اصلاحِ حال کی طرف متوجہ کیا۔ تاہم آپ نے اس کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کی جگہ صالح حکمراں لانے کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ امیر کبیر نے ان تمام عوامل سے اوپر اٹھ کر سوچا اور خود اپنے مثبت فکر کے تحت اپنا پروگرام بنایا۔ پھر یہ پروگرام بھی کوئی کنونشن یا کانفرنس کا انعقاد نہ تھا۔ یہ تمام تر ایک خاموش عملی پروگرام تھا۔ وہ اور ان کے رفقا ریاست کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور پُر امن طور پریہاں کے باشندوں میں اسلام کی تبلیغ کرنے لگے۔ انھوں نے کشمیریوں کی زبان سیکھی، یہاں کے حالات سے اپنے کو ہم آہنگ کیا۔ اجنبی دیس میں اپنے لیے جگہ بنانے کی مصیبتیں اٹھائیں۔ اس طرح صبر وبرداشت کی ایک زندگی گزارتے ہوئے اپنے خاموش دعوتی مشن کو جاری رکھا۔

کشمیر میں اسلام

کشمیر میں اسلام کا ابتدائی داخلہ اگرچہ محمد بن قاسم (66-96ھ) کے زمانہ میں ہوا۔ تاہم ریاست میں اسلام کی نمایاں اشاعت غالباً سید بلبل شاہ قلندر ترکستانی کے وقت سے شروع ہوئی۔ سات سو سال پہلے کشمیر میں ایک بودھ راجہ رینچن شاہ کی حکومت (1320-23 ء) تھی۔ یہ راجہ سید بلبل شاہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا۔ اس زمانہ میں لوگ اپنے سرداروں کے دین پر ہوتے تھے۔ راجہ کو دیکھ کر کشمیریوں کی ایک تعداد مسلمان ہوگئی۔ سیدبلبل شاہ فقہی مسلک کے اعتبار سے حنفی تھے۔ چنانچہ اس وقت جو لوگ مسلمان ہوئے، وہ ان کے اثر سے حنفی مسلک کے مطابق عبادت کرنے لگے۔ میرسید علی ہمدانی کی تبلیغ سے جب کشمیری باشندے مسلمان ہونے لگے تو ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، وہ یہ کہ یہ نومسلم کس فقہی مسلک پر عبادت کریں۔ امیر کبیرخود شافعی المسلک تھے، اور اس وقت کشمیر میں جو مسلمان تھے، وہ حنفی المسلک تھے۔ امیر کبیر اگر ان نومسلموں کو اپنے فقہی مسلک کی تلقین کرتے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں دو گروہ بن جاتے۔ ایک امیر کبیرکے ہاتھ پر اسلام لائے ہوئے لوگوں کا، دوسرا بقیہ کشمیری مسلمانوں کا۔ حنفی اور شافعی کا یہ جھگڑا نہ صرف دونوں کے مدرسوں اور مسجدوں کو الگ کردیتا، بلکہ اپنے اپنے فقہی مسلک کی صحت و برتری ثابت کرنے کی کوشش میں اصل تبلیغی کام پس پشت پڑجاتا۔کشمیری مسلمان دو جتھوں کی صورت اختیار کرکے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیتے۔ جو قوت دینِ حق کی اشاعت میں صرف ہوتی، وہ آپس کے جھگڑوں میں بر باد ہوجاتی۔ نسلیں گزر جاتیں مگر یہ اختلاف کبھی ختم نہ ہوتا۔

میر سید علی ہمدانی نے صرف اساساتِ دین کی تبلیغ کی۔ انھوں نے فقہی مسالک کی کوئی بحث نہیں چھیڑی۔ انھوں نے یہاں تک احتیاطسے کام لیا کہ اپنا شافعی المسلک ہونا اپنے پیروؤں سے پوشیدہ رکھا۔ عام مسلمانوں کے ساتھ آپ خودبھی حنفی طریقہ پر نماز پڑھتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اسی کے مطابق عبادت کرنے کی تلقین کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر میں ان کو کام کرنے کے مکمل مواقع ملے۔ ان کو ہر طبقہ کا تعاون حاصل رہا۔ غیر متعلق مسائل کے الجھاؤ سے وہ بالکل محفوظ رہے۔ اپنی دعوتی جدوجہد میں ان کو اتنی زیادہ کامیابی ہوئی کہ کشمیر دائمی طورپر مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ امیر کبیر اگر یہاں حنفی مسلک اور شافعی مسلک کی بحثیں چھیڑتے تو ان کو یہ کامیابی نہیں ہوسکتی تھی، اور بالفرض اگر کوئی کامیابی ہوتی تو وہ بھی اِس قیمت پر کہ ان کی آمد کشمیری مسلمانوں کو باہم لڑنے والے دو گروہوں میں بانٹ دینے کا سبب بن جاتی۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو لوگ اس راہ پر چلیں ان کا کسی سے اختلاف نہیں ہوگا۔ با مقصد آدمی کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ خود امیر کبیر کے حالات بتاتے ہیں کہ 73 سال کی عمر میں موضع پکھلی (کشمیر) کے کچھ شر پسندلوگوں نے آپ کو زہر دے دیا، اور اسی میں آپ کا انتقال ہوا۔ تاہم اس قسم کا اختلاف محض ذاتی وجوہ سے ہوتا ہے اور وہ داعی کو صرف ذاتی نقصان پہنچاتا ہے، جب کہ ایک غیر دینی مسئلے کو دینی مسئلہ بنانا دین میں فرقہ بندی کو جنم دیتا ہے، جو اتنا بڑا جرم ہے کہ کسی گروہ سے وہ تمام نعمتیں چھن جاتی ہیں جو کتاب ِالٰہی کا حامل ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے مقدر کی گئی تھیں۔

امیر کبیرسید علی ہمدانی کی زندگی اسلامی طریقِ کار کی نہایت کامیاب عملی مثال ہے۔ اپنی پُرامن دعوتی جدوجہد میں انھوں نے جس چیز کو مرکز توجہ بنایا، وہ توحید اور آخرت کا مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ سیاسی مسئلے، معاشی مسئلے، فقہی مسئلے، انھوں نے بالکل نہیں چھیڑا۔ وہ اصل دین پر یکسو رہے، نہ کہ متفرقاتِ دین پر۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عبادت کی ادائیگی میں آداب اور مناسک کے لحاظ کو غیر ضروری سمجھتے تھے۔ وہ ہر ایک کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، اورہر چیز کو انھوں نے بالفعل اختیار کیا۔ تاہم انھوں نے جس چیز کو دعوت کا عنوان بنایا، وہ متفق علیہ دین تھا، نہ کہ سُبُلِ متفرقہ۔

امیر کبیر فقہ کی تمام شرائط کے مطابق مکمل نماز پڑھتے تھے، مگر فقہی اختلافات کے پیچھے پڑنا، ایک مسلک کو غلط ثابت کرکے اس کی جگہ دوسرے مسلک کی ترجیح قائم کرنا، انھوں نے اپنا مشن نہیں بنایا۔ اسی طرح معاشیات کے سلسلے میں انھوں نے ایک راستہ اختیار کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو وہ اوران کے ساتھی زندہ کیسے رہ سکتے تھے۔ مگر معاشی مسائل کو حل کرنے یا اس کو پوری ملت کا مشترک مسئلہ بنا کر اس کی بنیاد پر تحریک چلانے کا طریقہ انھوں نے اختیار نہیں کیا۔ اسی طرح سیاست کا نعرہ نہ لگانے کے باوجود ان کی ایک سیاست تھی، بلکہ نہایت گہری سیاست تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کشمیر کو یہ مقام نہ ملتا کہ یہاں صرف مسلم وزارت بنتی ہے،دوسری وزارت بننے کا یہاں کوئی سوال نہیں۔ کشمیر کو یہ سیاسی عطیہ تمام تر امیر کبیر کی دین ہے۔ اگر چہ معروف معنوں میں انھوں نے کوئی سیاسی پروگرام اپنی زندگی میں نہیں چلایا اور نہ کوئی ان کو ’’سیاسی لیڈر‘‘ کی حیثیت سے جانتا ہے — امیر کبیر ہر چیز کے پیچھے نہیں دوڑے۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ حقیقت کا سِراا پکڑ لیا۔ اس کے بعد تمام چیزیں خود بخود ان کی طرف آتی چلی گئیں۔

 

خواجہ نظام الدین اولیا ءنے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ عام لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھے کے ساتھ ٹیڑھا۔ لیکن ہمارے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ سیدھوں کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھوں کے ساتھ بھی سیدھا۔ اگرکوئی شخص ہمارے سامنے کانٹا ڈالے اور ہم بھی کانٹا ڈالیں تو کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ اگر کسی نے کانٹا ڈالا ہے تو تم اس کے سامنے پھول ڈالو۔ پھر پھول ہی پھول ہوجائیں گے۔(الرسالہ، اپریل، 2006)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom