آفاقی طرزِ فکر
قرآن کی آئڈیا لوجی آفاقی آئڈیالوجی ہے۔یہ نقطۂ نظرمختلف انداز سے سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے، وہ زمین میں بڑے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا، اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے، پھر اس کو موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے یہاں مقرر ہوچکا (4:100)۔ قرآن کی یہ آیت زیادہ معنی خیز انداز میں میری سمجھ میں اس وقت آئی، جب کہ میں نے 1971 میں احمد آباد کا سفر کیا۔ یہاں میری ملاقات ایک مسلم نوجوان سے ہوئی۔ وہ انجینئر تھے۔ حال میں انھوں نے ایک فیکٹری بنائی تھی۔ وہ مجھ کو اپنی فیکٹری میں لے گئے۔ ان کی فیکٹری میں ابھی تک کوئی پروفیشنل مینیجر نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی فیکٹری کے مختلف حصوں کو دکھاتے ہوئے پروفیشنل مینیجر کے نہ ہونے کا ذکر کیا، اور کہا: اپنی تو لیمیٹیشنس (limitations) آجاتی ہیں، مینجمنٹ سائڈ پر۔
فیکٹری کے مالک کا یہ جملہ سن کر میرا مائنڈ ٹریگر (trigger)ہوگیا۔ میں نے ایک نئے لائن پر سوچنا شروع کردیا۔ میں نے سوچا کہ ہمارے رہنماؤں نے پوری بیسویں صدی اسی سوچ میں گزار دی۔ ایک لفظی فرق کے ساتھ ان کی مشترک سوچ یہ تھی: اپنی تو لیمیٹیشنس آجاتی ہیں، پولیٹکل سائڈ پر۔ پولٹکس کوئی آفاقی نقطہ نظر نہیں ہے۔ پولٹکس کی محدود سرحدیں ہوتی ہیں۔ اس بنا پر ہمارے تمام رہنما گویا زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اپنی تو لیمیٹیشنس آجاتی ہیں، پولٹکل سائڈ پر۔ اس فکری محدودیت کی بنا پر ہمارے رہنما امت کو آفاقی نقطہ نظر نہ دے سکے۔ ہررہنما کی سوچ کسی نہ کسی پولٹکل سرحد پر رک گئی۔ ہر رہنما فکر ی محدودیت کا شکار ہوا، اور امت کو بھی فکری محدودیت میں مبتلا کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پولٹکل سرگرمی اور دعوتی عمل دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔سیاسی نقطۂ نظر محدود نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دعوت کا نقطۂ نظر آفاقی نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ آفاقی نقطۂ نظر کی کوئی جغرافی سرحد نہیں ہوتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آج امتِ مسلمہ پولٹکل سرگرمیوں سے ہجرت کرلے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے مدینے کو ہجرت کی تھی۔اس کے بعد ہی وہ دعوتی مشن کو آفاقی طور پر آگے لے جاسکتے ہیں۔
پیغمبرِ اسلام بعثت کے بعد تیرہ سال مکہ میں رہے۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ جب آپ نےہجرت کا ارادہ کیا تو اس وقت آپ نے اپنے اصحاب کو پیشین گوئی کی زبان میں خبر دیا تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مشن کے لیے اگرچہ ایک طرف، مکہ میں، رکاوٹ ہے، اس کے باوجود دوسری طرف، مدینہ میں، اس کا راستہ کھلا ہوا ہے،اس راستے سے یہ ساری دنیا میں پھیلے گا۔
چودہ سو سال کی مدت گزرنے کے بعداب امت حدیث میں مذکور پیشین گوئی کے بعد کے دور میں ہے۔ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، اس پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخی ارتقا کے نتیجے میں بعد کو کمیونی کیشن (communication) کا زمانہ آئے گا۔ نئے مواقع کے استعمال سے امت کے افراد اپنے دینی مشن کو ساری دنیا میں پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ دینی مشن ساری سرحدوں سے گزرکر تمام ملکوں میں پھیل جائے گا۔ یہ واقعہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: یہ امر ضرور اس حد تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں، اور اللہ نہیں چھوڑے گا کسی چھوٹے اور بڑے گھر کو مگر اللہ ضرور اس کے اندر اس دین کو داخل کرے گا(مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج آفاقی دعوت کے تمام مواقع کھل گئے ہیں۔دعوتی سفر میں آج کوئی دیوار یا کوئی سرحد رکاوٹ نہیں۔ پولٹکل تحریک کے لیے ہر طرف سرحدوں کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔ لیکن پرامن دعوتی مشن کے لیے کہیں کوئی دیوار حائل نہیں۔ ہر انسان اس کا مخاطب ہے، اور ہر جغرافی حصہ اس کی مملکت میں شامل ہے۔