ایک عمل جوانسان کو رب العالمین کا محبوب بنا دیتا ہے

اختلاف کے باوجود متحد ہو کر اللہ کے مشن کے لیے کام کرنا ایک ایسا عمل ہے، جو انسان کو معمولی انسان سے بڑھا کر غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔ ایسا انسان رب العالمین کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ یہ حقیقت قرآن کی ایک آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر قتال کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

قرآن کی اس آیت میں یقاتلون سے مراد یجاھدون ہے۔ یعنی اللہ کے مشن میں بھر پور طاقت کے ساتھ اپنی کوشش جاری رکھنا۔ اللہ کا مشن کیا ہے، اللہ کی مرضی کو اللہ کے بندوں تک پرامن طریقے سے پہنچانا۔ ایسا انسان اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ ایسے انسان کو اللہ خصوصی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ ایسے انسان کے لیے فرشتے بہترین دعائیں کرتے ہیں، ایسے انسان کو آخرت میں وہ درجہ ملتا ہے، جو دوسرے انسانوں کو نہیں ملتا۔

دنیا کی زندگی میں جب بھی مل جل کر کوئی کام کیا جائے تو ضرور ایسا ہوتا ہے کہ آپس میں اختلافات (differences)پیدا ہوں۔ایک کو دوسرے سے شکایت کا تجربہ پیش آئے۔ اجتماعی جدو جہد میں اس قسم کا تجربہ پیش آنا بالکل فطری ہے، جو انسان ایسا تجربہ پیش آنے کے بعد اس کو عذر (excuse)بنا لے، اور شکایت کو عذر بنا کر اجتماعیت سے الگ ہوجائے، وہ اللہ کا غیر محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو انسان شکایت کو نظر انداز کرے، اوراختلاف کے باوجود متحد ہوکر اپنا کام جاری رکھے، وہ اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔

اجتماعی جدو جہد میں اختلاف کا پیش آنا، کوئی برائی نہیں، بلکہ وہ ایک موقع (chance) ہے۔ جب کوئی انسان اختلاف کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرے، اور بڑھے ہوئےجذبے کے ساتھ خدا کے مشن کو بدستور جاری رکھے۔ ایسا انسان اپنے آپ کو اس بات کا مستحق بنادیتا ہے کہ اللہ کے یہاں اس کا درجہ بہت بڑھ جائے۔

اس دنیا میں کوئی بڑا کام اجتماعی جدو جہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور اجتماعی جدو جہد میں اختلافات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ایسی حالت میں کوئی بڑا کام کس طرح کیا جائے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ اختلاف کو انا (ego) کا مسئلہ نہ بنا یا جائے، بلکہ ا س کو اللہ رب العالمین کے خانے میں ڈال دیا جائے۔

حدیث کی کتابوں میں عبادہ بن الصامت سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: بَایَعْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَعَلَى أَثَرَةٍ عَلَیْنَا، وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَہْلَہُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَیْنَمَا کُنَّا، لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَةَ لَائِم(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1709)۔یعنی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی، مشکل اور آسانی، خوشی اور ناخوشی ہر حالتوں میں، اور یہ کہ ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور یہ کہ ہم اولو الامر کے ساتھ اختلاف نہیں کریں گے، اور ہم جہاں بھی ہوں حق بات کہیں گے، اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے سے خوف نہیں کریں گے۔

یہ اجتماعی جدو جہد کا کلچر ہے۔ اس کلچر کا تعلق جنگ سے نہیں ہے، بلکہ پر امن جدو جہد سے ہے۔ کسی مشن کے لیے پر امن جدو جہد کرنے میں یہ تمام امتحانات لازماً پیش آتے ہیں۔ ان امتحانات میں پورا اترنا، وہ عمل ہے، جو انسان کو اللہ کا محبوب بندہ بنا دیتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom