حکومت کا معاملہ
قرآن و سنت اور صحابہ کے عمل پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کا کوئی واحد آئڈیل ڈھانچہ نہیں ہے۔ حکومت کا معاملہ سماجی صورتِ حال کے تابع ہے، نہ کہ پیشگی طور پر کسی مقرر کردہ معیار کے تابع۔حکومت کا معاملہ نماز اور روزے کی طرح مقدس معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ عملی صورت حال کے تابع ہے۔ جیسی عملی صورتِ حال، ویسا ہی حکومت کا ڈھانچہ۔ یہی بات فطرت کے تقاضے کے مطابق ہے۔
اگر حکومت کا پیشگی طور پر کوئی معیاری نظام مقرر کردیا جائے تو موجودہ دنیا میں ایسا معیاری نظام تو کبھی قائم نہیں ہوگا، البتہ معیاری نظام قائم کرنے کے نام پر لوگ ابدی طور پر لڑتے جھگڑتے رہیں گے۔صحیح یہ ہے کہ اسلام میں دعوت اور تعلیم کا عمل ابدی طور پر یکساں حالت میں مطلو ب ہے،اور جہاں تک حکومت کا معاملہ ہے۔ تو اس کا اصول یہ ہے کہ جیسے سماجی حالات، ویسا ہی حکومت اور سیاست کا معاملہ۔
اسی لیے قرآن میں حکومت کے فارم کے بارے میں مختلف صورتوں کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً حضرت سلیمان کی حکومت، ملکۂ سبا کی حکومت، حضرت یوسف کی حکومت، وغیرہ۔ ان میں سے حکومت کا ہرڈھانچہ کسی تنقید کے بغیر قرآن میں مذکور ہے۔ لیکن ان میں سے کسی حکومت کے ڈھانچہ کو نہ تو رد کیا گیا ہے، اور نہ کسی ڈھانچہ کی مدح کی گئی ہے۔
حکومت کے ڈھانچے کو اضافی حیثیت دینا، اپنے اندر بہت بڑی حکمت رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ حکومت کا ڈھانچہ خواہ کوئی بھی ہو، اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے رہو۔ کسی کے ساتھ ٹکراؤ نہ کرو۔حکومت سے اگر ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو اس کو مینج کرکے یہ کوشش کرنا ہے کہ ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے۔ حکومت کے معاملے میں اسلام کا رویہ غیر نزاعی رویہ (non-confrontational approach) ہے۔ اس اصول کی بنا پر یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ سماج میں ہمیشہ امن قائم رہے۔