نتیجہ خیز آغاز

ایک صاحب لکھتے ہیں:میں آپ کی کئی تقریروں کو سننے کے بعد آپ کی اوریجنل اور گہری فکر سے میں کافی متاثر ہوا ہوں۔ لیکن آپ کی باتوں کو سننے کے بعد آپ کے اسٹیٹس کو (status quo)کے نظریے کے بارے میں میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ اگر اسٹیٹس کو کو قبول کرنا، اتنا ونڈر فل معاملہ ہے تو ہندستان برٹش حکومت کے ماتحت ہی رہتا۔ دوسرے ممالک، جیسے ترکی، ملیشیا، انڈونیشیا، سوڈان، اور نائیجیریا وغیرہ تو اپنے غیر ملکی رولر (rulers)کے تحت ہی باقی رہتے۔ آپ مجھے ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیجیے۔ (جاوید اظہر خان، پاکستان)

جواب: اسٹیٹس کو کامطلب ہے حالت موجودہ، بطور خاص سماجی اور سیاسی معاملات میں:

the existing state of affairs, particularly with regard to social or political issues.

میں اسٹیٹس کو ازم کو جس معنی میں استعمال کرتا ہوں، اس کا مطلب حالت موجودہ کو باقی رکھنے پر ہمیشہ کے لیے راضی رہنا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طریقِ کار سے ہے۔یہ ایک لفظ میں نتیجہ رخی طریقہ کو اختیار کرناہے۔یعنی حالت موجودہ سے براہ راست ٹکراؤ کرنے کے بجائے مواقع کو دریافت کرنا، اور حالت موجودہ کو برقرار رکھتے ہوئے جو ابتدا ممکن ہو، اس سے اپنے عمل کا آغاز کرنا، اور غیر نزاعی (non-confrontational) انداز میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی پرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔ اس ماڈل کی ایک کامیاب مثال ساؤتھ افریقہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ میں ہندستان کی طرح برٹش راج قائم تھا۔ وہاں حالات کے زیر اثر ایسا ہوا کہ براہ راست سیاسی لڑائی کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ ایک مختلف انداز میں کام شروع ہوا۔ یعنی ساؤتھ افریقہ میں کام کا آغاز پولٹکل ایکٹیوزم سے نہیں ہوا، بلکہ ایجوکیشنل اکٹیوزم کے طو رپر ہوا۔

یہ ایک صحیح آغاز (right beginning)کا معاملہ تھا۔یعنی پہلے قوم کو تیار کرنا، اور اس کے بعد سیاسی اقتدار کا ملنا۔انڈیا میں اس سے مختلف ماڈل اختیار کیا گیا۔ ساؤتھ افریقہ میں جو ماڈل اختیار کیا گیا، وہ مختصر طور پر یہ تھا کہ پہلے ایجوکیشن اور اس کے بعد سیاسی اقتدار۔ اس کے برعکس، انڈیا میں جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ پہلے سیاسی اقتدار اس کے بعد تعلیم۔ ترتیبِ کار میں اسی فرق کی بنا پر یہ ہوا کہ انڈیا 1947 میں آزاد ہوگیا، جب کہ ساؤتھ افریقہ بہت بعدمیں 1994 میں آزاد ہوا۔ مگر نتیجہ بتاتا ہے کہ ساؤتھ افریقہ کو آزادی کے ساتھ ہی ترقی یافتہ ملک (developed nation) کی حیثیت حاصل ہوگئی، جب کہ انڈیا آزادی کے باوجود ابھی تک صحیح معنوں میں ترقی یافتہ نیشن کے درجے تک نہیں پہنچا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے نوجوان آزاد ہندوستان کو چھوڑ کر انھیں ملکوں کی طرف چلے جارہے ہیں، جن سے ان کے لیڈروں نے آزادی حاصل کی تھی۔

یہ ماڈل اسلام کی اسپرٹ کے مطابق ہے۔ میرے مطالعے کے مطابق، اسلام میں بھی اسی ماڈل کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس ماڈل کو’’حطیم ماڈل‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ نے مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا تو کعبہ کی عمارت اپنے ابراہیمی ماڈل پر نہ تھی، بلکہ کعبہ کی عمارت اُس تعمیری بنیاد پر موجود تھی، جس کو رسول اللہ کے زمانے کے مشرکین نے بنایا تھا۔ یعنی کعبہ کی عمارت دو تہائی رقبے پر قائم تھی، اور ایک تہائی رقبہ حطیم کی صورت میں خالی پڑا ہوا تھا۔ پیغمبر اسلام نے حطیم کے معاملے میں اسٹیٹس کو کا طریقہ اختیارکیا، اور کعبے کی موجود عمارت کو عملاً قبول کرتے ہوئے اپنے مشن کا آغاز کردیا۔

قرآن میں حج کے تذکرے کے تحت یہ بیان آیا ہے:لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:28)۔ یعنی تاکہ وہ ان فائدوں کو دیکھیں جو ان کے لئے ہیں۔اس آیت میں منافع (benefit) کا غالباً ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ حطیم کے تاریخی ماڈل کو دیکھیں، اوراس سے سبق لیتے ہوئے، غیر نزاعی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ وہ اپنے کام کو وہاں سے شروع کریں، جہاں ہر قدم تعمیرکے ہم معنی ہو۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، آپ کو صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے نام سے بظاہرایک ملک بن گیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیےکہ پاکستان کا جو نشانہ تھا، وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا، اور اس کا سبب یہی ہے کہ پاکستان کو بنانے میں ’’حطیم ماڈل‘‘ کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom