فقہ الاقلّیات
موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے، جس کو فقہ الاقلیات کہا جاتا ہے۔ فقہ الاقلیات کی تعریف یہ کی جاتی ہے: الأحکـام الفقہیـة المتعلقـة بالمسـلم الذی یعیش خارج بلاد الإسلام۔ یعنی وہ فقہی احکام جو اس مسلمان سے متعلق ہیں، جو اسلامی ممالک سے باہر رہتاہے۔فقہ الاقلیات کی اصطلاح ایک مبتدعانہ اصطلاح ہے۔ قرآن و حدیث میں اس قسم کی کوئی اصطلاح موجود نہیں۔’’فقہ الاقلیات‘‘ کا تصور مسلمانوں کے لیے غیر ضروری طور پر دوسری قوموں کے ساتھ نارمل طریقے پر رہنے میں مانع بن جاتا ہے۔ مسلمان دہری شخصیت کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہی چیز ہے جس کو منافقت کہا جاتاہے۔ مسلمان جدید دنیا میں ایک مس فٹ کمیونٹی (misfit community) بن کر رہ جاتے ہیں۔
صحیح بات یہ ہے کہ غیر مسلم ریاست اور مسلم ریاست کی تقسیم بذات خود بے بنیاد ہے۔ مسلمانوں کو ساری دنیا میں ایک ہی ذہن کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ یہ کہ سارے لوگ انسان ہیں، اورساری دنیا دار الانسان ہے۔ مسلمانوں کو دنیا میں اس طرح رہنا ہے، جیسے کہ وہ اپنے بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔یہی حقیقت ایک حدیث رسول سےواضح ہوتی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے(سنن الترمذی، حدیث نمبر3955)۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے مسلمانوں کے لیے جو طرزِ زندگی ثابت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر ماحول میں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کون سی روش ہے، جس کو وہ غیر نزاعی طور پراختیار کرسکتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ ہر ماحول میں زندگی کا غیر نزاعی ماڈل دریافت کریں، اور جس ماڈل کو اختیار کرنے میں نزاع پیدا ہوتی ہو، اس کو چھوڑ دیں، خواہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر۔ مسلمان کے لیے اصل معیار یہ ہے کہ جہاں بھی ہوں، ٹکراؤ یا نزاع کو اوائڈ کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔
بلاشبہ مسلمانوں کے لیے ایک مسنون ماڈل ہے، جو اسوۂ رسول پر قائم ہے۔ لیکن اس مسنون ماڈل میں اصل چیز دعوت الی اللہ ہے، کوئی دوسری چیز اس مسنون ماڈل کا ابدی حصہ نہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے عمل کی پلاننگ اس طرح کریں کہ وہ جہاں بھی ہوں،دعوت الی اللہ کا پیس فل کام مسلسل طور پر جاری رہے۔ جو روش دعوت الی اللہ کے کا م کو موقوف کردے، یا دعوت الی اللہ کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والی ہو، وہ مسلمانوں کو مکمل طور پر چھوڑ دینا ہے۔ یہی مطلب ہے قرآن کی آیت کا کہ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔یعنی ڈرٹی پریکٹس (dirty practice) کو چھوڑ دو۔ رسول اللہ نے جو طریقہ مکی اور مدنی دور میں یکساں طور پر اختیار کیا، اس کو دیکھ کر اس کو سمجھا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ رجز سے مراد نزاعی طریقہ ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نزاعی طریقہ کو چھوڑدو تاکہ دعوت الی اللہ کاکام پر امن اور معتدل انداز میں جاری رہے۔
اس اصول کے تحت پیغمبر اسلام نے مکے میں بھی اور مدینے میں بھی یکساں طور پر عمل کیا۔ آپ کا اصل گول دعوت الی اللہ تھا۔ جو کام آپ کے دعوتی مشن میں رکاوٹ ڈالے، وہ آپ کے لیے رُجز کی حیثیت رکھتا تھا۔ مثلاً اس وقت مکہ کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ کعبہ میں تقریباً 360 بت رکھ دیے گئے تھے۔ لیکن آپ نے ان بتوں کے خلاف براہ راست کوئی تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ عملاً ان کو نظر انداز کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھا۔ اس اصول کے معاملے میں آپ اس آخری حد تک پہنچے کہ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو آپ نے تقریباً سولہ مہینے تک یہود کے قبلے کو اپنا قبلہ بنا لیا۔ تاکہ دعوت الی اللہ کے کام کا تسلسل اسمود (smooth) طور پر جاری رہے۔
اہلِ اسلام کے لیے نہ کوئی اقلیتی فقہ ہے، اور نہ کوئی اکثریتی فقہ۔ اہلِ اسلام کو ہر جگہ یہ کرنا ہے کہ وہ سیاسی اور غیر سیاسی نزاع سے پر ہیز کریں۔ وہ امن (peace) کو اصل اجتماعی اصول قرار دے کر معتدل انداز میں زندگی گزاریں۔ وہ عقیدہ اور عبادت،اور اخلاق کے آزاد دائرے میں اپنے آپ کو اسلام کی روش پر قائم کریں، اور وقت کے نظام سے ٹکراؤ کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہوئے زندگی گزاریں، وہ أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052) کے فارمولے پر عمل کریں۔