دینِ خداوندی کے دو دور

ایک تاریخی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اورانفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔

یہ سورہ ایک مکی سورہ ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں کسی وقتی صورت حال کا ذکر نہیں، بلکہ اس میں دینِ خدواندی کی پوری تاریخ کا ایک اجمالی بیان ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کی دینی جدو جہد کسی وقتی نشانی کے لیے نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا عمل (process) جاری کیا جائے، جو اللہ کے دین کے کامل اظہار کے ہم معنی بن جائے۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کا دین تمام دوسرے دینوں پر غالب ہوجائے(التوبۃ، 9:33)۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اللہ کا لایا ہوا دین ساتویں صدی عیسوی میں شرک کے دین پر غالب آگیا۔ رسول اوراصحابِ رسول کی جدو جہد سے شرک کے دین کا دبدبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ اب اگر کہیں شرک کا دین باقی ہے تو وہ کچھ لوگوں کے اندر محض ذاتی عقیدے کی سطح پرباقی ہے۔ اجتماعی غلبے کی شکل میں کہیں بھی شرک کا دین باقی نہیں۔

لیکن بعد کے زمانے میں دینِ الحاد (atheism)وجود میں آیا۔ موجودہ زمانے میں یہی دینِ الحاد نظریاتی اعتبار سے ایک غالب دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی واقعہ ہے جس کی بنا پر قرآن کی مذکورہ آیت (فصلت، 41:53)میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی دینِ شرک کا خاتمہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں ہوا، اور دینِ الحاد کا خاتمہ بعد کے زمانے میں ہوگا۔

قرآن میں اظہارِ دین (التوبۃ، 9:33)کو پیغمبر اسلام کا نشانہ بتایا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نشانے کی تکمیل کے دو دور ہیں۔ پہلا دور روایتی دور (traditional age) تھا،جس کا اتمام سائنسی انقلاب سے پہلے وقوع میں آیا۔ اس دور میں رسول اور اصحابِ رسول کی جدوجہد سے ایسے حالات پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا، جو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب تک پہنچا۔ دوسرا دور آفاق و انفس کی نشانیوں کی دریافت (فصلت، 41:53) کے بعد کا دور ہے، جو پچھلے چار سوسال کے اندر سائنسی انقلاب کے ذریعے پیش آیا۔

اسی سائنسی انقلاب کو قرآن میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے ظہور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس دوسرے دور کو قرآن (فصلت، 41:53) میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ گویا تبیینِ حق کے دودور ہیں۔ ایک ہے روایتی دور میں تبیینِ حق، اور دوسرا ہے سائنسی دور میں تبیینِ حق۔ اس دوسرے دور میں وہ علمی فریم ورک (scientific framework)وجود میں آیا، جس کو استعمال کرکے اعلیٰ معرفت حاصل کی جائے، اور دینِ الحاد کا نظری طور پر خاتمہ کردیا جائے۔

تبیینِ حق کے یہ وسائل اکیسویں صدی میں آخری طور پر حاصل ہوچکے ہیں۔ اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ ان نئے امکانات کو استعمال کرکے دینِ الحاد کا نظری خاتمہ کردیا جائے۔ یہی وہ دور ہےجس کی خبر حدیث میں شہادتِ اعظم کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ہَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَہَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِین (صحیح مسلم، حدیث نمبر2938)۔

حدیث میں بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والے ایک عظیم فتنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے حدیث میں فتنۂ دہیماء (ابو داؤد، حدیث نمبر4242)کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔فتنۂ دہیماء کا مطلب ہے، سیاہ فتنہ(black days)۔ یعنی ایسا زمانہ جب کہ کچھ دکھائی نہ دے۔ حق اور ناحق کو الگ کرکے دیکھناناممکن ہوجائے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمانے ایک ساتھ آئیں گے۔ یعنی ایک طرف سائنسی دریافتوں سے وہ مواقع کھلیں گے، جب کہ دینِ الحاد کو مغلوب کرکے اسلام کے دوسرے دور (تبیین ثانی ) کو مکمل کیا جائے۔ لیکن عین اسی زمانے میں اہلِ باطل ایسے حالات پیدا کردیں گے جو روشن دور کو عملاً تاریک دور بنادیں گے۔ لوگوں کے لیے صحیح اورغلط میں تمیز کرنا ممکن نہ رہے گا۔اس بنا پر لوگوں کے لیے یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے حق کی تبیین ثانی کے عمل کو مکمل کریں۔

اکیسویں صدی میں یہ فتنۂ دہیماء (تاریک فتنہ) آخری طور پر ظاہر ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر بظاہر بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے یہ سرگرمیاں اندھیرے میں چھلانگ کے ہم معنی ہیں۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں، میں امت مسلمہ کا ایک فرد ہوں، لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ وہ جس زمانے میں ہیں، وہ زمانہ کیا ہے۔

موجودہ زمانہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تبیینِ حق کا زمانہ ہے۔ یعنی وہ زمانہ جس میں امکانی طور پر سچائی کو پوری طرح کھول دیا گیا ہے۔ یہ معلوم کرنا آخری حد تک ممکن ہوگیا ہے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس طرح بے خبری کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں، جیسے کہ وہ اندھیرے میں بھٹک رہے ہوں۔

غالباً یہی وہ زمانہ ہے جس کی حدیث میں ان الفاظ میں خبر دی گئی ہے کہ اس زمانے میں الْأَئِمَّةُ الْمُضِلُّونَ (مسند احمد، حدیث نمبر27485)ظاہر ہوں۔ یعنی گمراہ کرنے والے رہنما۔یہ گمراہ کرنے والے لوگ کون ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو امت کو غلط نشانے کی طرف دوڑا دیں گے۔ اس دور میں اصل کرنے کا کام تو یہ ہوگا کہ نئے امکانات کو دریافت کرکے لوگوں کو اعلیٰ معرفت پر کھڑا کیا جائے۔ مگر وہ یہ کریں گے کہ امت کو یہ بتائیں گے کہ ساری دنیا تمھاری دشمن ہے، ان سے لڑو۔ اس طرح وہ امت کو منفی سوچ کا کارخانہ بنا دیں گے۔

کچھ لوگ امت کو فرضی فخر (false pride) پر کھڑا کریں گے۔ قدیم یہود کے اندر بگاڑ کے دور میں ایک کلچر پیدا ہوا، جس کو جوئش سپرامیسزم (Jewish supremacism) کہا جاتا ہے۔ یعنی یہودی برتری کا تصور۔ یہ لوگ امت کے افراد میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا کلچر جاری کر دیں گے۔وہ مسلمانوں کو فرضی فخر کی غذا دیں گے، جس سے لوگ وقتی طور پر خوش ہو جائیں۔ لیکن انھیں دینِ خداوندی کے احیا کا کوئی مثبت نشانہ نہیں ملے گا۔

کچھ لوگ مسلمانوں کو یہ سبق دیں گے کہ تمھارا کام یہ ہے کہ تم ساری دنیا میں اسلام کی عظمت کا جھنڈا لہراؤ۔اس طرح وہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسا ذہن پیدا کردیں گے جو اپنے اعلان کے اعتبار سے تو اسلامی ذہن ہوگا، لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے صرف تخریبی ذہن۔

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیبًا، وَسَیَعُودُ کَمَا بَدَأَ غَرِیبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاء (صحیح مسلم، حدیث نمبر145)۔یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا، اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا، تو مبارک ہیں ایسے اجنبی لوگ۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے میں کوئی دور ایسا آئے گا، جب کہ اسلام کا وجود باقی نہ رہے۔ اسلام کے اجنبی ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اصل ماڈل کا لوگوں کے لیے اجنبی ہوجانا۔ یعنی اس دور میں اسلام بظاہر پوری طرح موجود ہوگا، لیکن اسلام کی اصل اسپرٹ باقی نہ رہے گی۔ اس زمانے میں اسلام اپنی اسپرٹ کے اعتبار سے مفقود ہوگا، نہ کہ اپنی شکل کے اعتبار سے۔

غالباً اس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ بعد کے دور میں لوگ دین کے خود ساختہ ماڈل کو لے کر سرگرم ہوجائیں گے۔ اس لیے ایسی حالت میں جب ان کے سامنے دین کا اصل ماڈل پیش کیا جائے گا تو وہ ان کو اجنبی معلوم ہوگا۔ اس وقت جو لوگ اجنبیت کے پرد ےکو پھاڑ کر اسلام کے اصل ماڈل کو پہچانیں، اور پوری طرح اس کا ساتھ دیں، وہ اللہ کے نزدیک قابل مبارک باد لوگ ہوں گے۔

 

موجودہ مسلمانوں کو اگر مجھے ایک مشورہ دینا ہو تو میں کہوں گا — جذباتی کارروائیوں سے بچئے اور سوچے سمجھے عمل کا طریقہ اختیار کیجئے، اور پھر کامیابی آپ کے لیے اتنا ہی یقینی بن جائے گی جتنا کہ آج کی شام کے بعد کل کی صبح کو سورج کا نکلنا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom