ایج آف ریزن
حدیث رسول میں آیا ہے کہ ظہورِ دجال کے وقت ایک شخص دجال کے مقابلے میں حق کی گواہی دے گا(صحیح مسلم، حدیث نمبر2938)۔ یہ گواہی تاریخ کی ایک عظیم گواہی ہوگی۔ چنانچہ اس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے۔ شہادتِ اعظم سے کیا مراد ہے اس کا ایک کُلُو (clue) دجال سے متعلق ایک اور روایت (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2937)میں ملتاہے جس میں حجیج کا لفظ آیا ہے۔ یعنی دلیل و حجت کی سطح پر گواہی دینا۔ حدیث کے اس لفظ کو لے کر اس معاملے کی تشریح کی جائے تو بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جب دجال کا ظہور ہوگا تو تعقل کا دور (age of reason) آچکا ہوگا۔ دجال بظاہر عقلی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو فریب میں مبتلا کرے گا۔ اس کے بعد کوئی اللہ کا بندہ اعلیٰ عقلی استدلال کے ذریعے دجال کی پر فریب باتوں کو غلط ثابت کرے گا۔ وقت کے مطابق یہ کام حجت (reason) کی سطح پر ہوگا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دورِ سائنس میں پیش آئے گا۔ جب کہ مبنی بر تعقل دلائل کا دور آچکا ہوگا۔
سائنسی دور سے پہلے دینِ حق کی گواہی عقلِ عام (common sense) کی سطح پر دی جاتی رہی ہے۔ اس کے بعد دنیا میں سائنسی دور آیا۔ اس دور کو قرآن میں آفاق و انفس کے دلائل کے ظہور (فصلت،41:53) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دجال اسی دور میں ظاہر ہوگا۔ وہ جس ہتھیار سے لوگوں کو فریب میں ڈالے گا، وہ عقلی ہتھیار ہوگا۔ اللہ کی توفیق سے اس زمانے میں ایک بندہ عقل کا زیادہ برتر استعمال کرکے دجال کے فریب کو ختم کردے گا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم (great witness) کہا گیا ہے۔
سائنسی دور عقلیاتی دور کے دلائل کے ظہور کا زمانہ ہوگا۔ اس زمانے میں دجال عقلی دلائل کو غلط طور پر اپنے حق میں استعمال کرے گا۔ اس وقت اللہ کی توفیق سے اللہ کا ایک باخبر بندہ اٹھے گا، وہ اس دجال کی دجالیت کا پردہ پھاڑ کر حق کی کامل تبیین کرے گا (فصلت،41:53)۔