دین، تائیدِ دین
دین کا کام کرنے کی دو سطحیں ہیں۔ ایک ہے، براہ راست اور عمداً دین کا کام کرنا۔ اور دوسرا یہ ہے کہ آدمی کا ارادہ کچھ اور ہو، لیکن وہ ایسا کام کرے، جو بالواسطہ طور پر دین کے لیے تائید (support)فراہم کرنے والا ہو۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔
اس حدیث رسول میں فاجر کا لفظ آیا ہے۔ فاجر کا مطلب بدعمل (wicked) آدمی ہے۔ یعنی شریعت کی زبان میں گناہ گار آدمی۔ یہاں یہ سوال ہے کہ کوئی شخص جو ذاتی اعتبار سے ایک گناہ گار آدمی ہو، وہ کیسے دین کے لیے موید (supporter) بن سکتا ہے۔ یہ واقعہ بالواسطہ انداز میں ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسٹیفن ہاکنگ (1942-2018) ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نہ مسلم تھا، اور نہ شریعت کا پیرو۔ اس کو ایک سیکولر آدمی کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اس نے ایک ایسا کام کیا، جو دینِ اسلام کے عقیدۂ توحید کے لیے ایک مددگار بنیاد (supporting base) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ سے پہلے نیوٹن (1643-1727) نے یہ بتایا تھا کہ کائنات کو چار طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں:(1)قوتِ کشش (gravitational force) (2)برقی مقناطیسی قوت (electromagnetic force) (3)طاقت ور نیوکلیر قوت (strong nuclear force) (4) کم زورنیو کلیر قوت (weak nuclear force)۔
اس نظریے پر کام ہوتا رہا، یہاں تک کہ اسٹیفن ہاکنگ نے ریاضیاتی طور پر یہ بتایا کہ یہ طاقتیں چار نہیں ہیں، صرف ایک ہے۔ اس کو اس نے سنگل اسٹرنگ تھیری (single string theory)کا نام دیا۔ اس تحقیق پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سائنسی نظریہ اسلام کے تصورِ توحید کے لیے ایک نظریاتی تائید (ideological support) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی تحقیق کا یہ پہلو بلاشبہ حدیث کی زبان میں بالواسطہ دین کی ایک سائنسی تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔