ایک غلطی بھی
ایک بارمیں ایک دیہات میں گیا ہو ا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے نیم کا درخت کاٹا اور اس کے بعد اس کے تنہ کا چھلکا اتارنے لگا۔
"آپ اس کا چھلکا کیوں اتار رہے ہیں" میں نے دیہات کے اس آدمی سے پوچھا ۔ اس نے مسکر اکر جواب دیا : "اگر چھلکا نہ اتارا جائے تو اس کے اندر کیڑے لگ جائیں گے اورلکڑی کو خراب کر دیں گے "۔
یہ ۱۹۶۵ کی بات ہے۔ اگست ۱۹۷۵ میں دوبارہ مجھے ایک اور دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ نیم کا ایک کٹا ہوا تنہ پڑا ہے۔ ایک شخص نے اپنے گھر کے پاس نیم کا ایک درخت کاٹ دیا تھا مگر اس کا چھلکا نہیں اتارا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے دس سال پہلے والی بات یاد آئی۔ میں نے سوچا کہ تجربہ کر کے دیکھوں کہ اس کی بات صحیح تھی یا نہیں۔ میں نے اس کے گھر کے ایک آدمی سے کہا کہ کوئی اوزار لاؤ اور اس کا چھلکا اتارو ۔ جب اس نے چھلکا اتارا تو میں نے دیکھا کہ چھلکے کے نیچے ایک انچ کے موٹے موٹے کیڑے ہیں۔ یہ کیڑے نہایت نرم تھے مگر انھوں نے تنہ کی سطح کو جگہ جگہ اس طرح کاٹ ڈالا تھا جیسے اس کے اوپر نالیاں بنائی گئی ہوں ۔
یہ قدرت کا نظام ہے۔ قدرت اسی طرح سبق دیتی ہے کہ اس دنیا میں تم کو نہایت محتاط رہ کر زندگی گزارنا ہے ۔ کیوں کہ دنیا کا نظام اس طرح بنا یا گیا ہے کہ یہاں ایک غلطی تمہاری ساری خوبیوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ ایک غفلت تمہارے سارے امکانات کو بر باد کرنے کے لیے کافی ہے۔ قدرت یہ کر سکتی تھی کہ چھلکا اتارے بغیر نیم کے تنہ کو محفوظ رکھتی۔ مگر اس نے یہ قانون بنا دیا کہ اس کا مالک اس کا چھلکا اتار ے۔ اس کے بعد ہی اس کا تنہ اس دنیا میں محفوظ رہ سکے گا۔
اس قانونِ قدرت کا انطباق اب انسانی زندگی میں دیکھیے۔ کیوں کہ انسان کی دنیا میں بھی وہی قانون رائج ہے جو فطرت کی دنیا میں پایا جاتا ہے۔
۱۹۴۴ میں جون پور (یوپی) کے دو آدمیوں نے مل کر کاروبار شروع کیا۔ ابتدائی سرمایہ ان لوگوں کے پاس چند سو سے زیادہ نہیں تھا۔ مگر ان کے مشترکہ کاروبار میں خدا نے برکت دی اور چھ سال میں ان کے کاروبار کی حیثیت ۳۰ ہزار تک پہنچ گئی۔ اب دونوں میں اختلاف شروع ہو گیا اور نتیجہ علاحدگی تک پہنچا۔ ایک ثالث کے مشورہ سے طے ہوا کہ کاروبار تقسیم نہ کیا جائے ، بلکہ اس کی مالیت کا اندازہ کر کے اس طرح بٹوارہ ہو کہ ایک شخص نصف کے بقدر رقم لے لے اور دوسرے کو اثاثہ سونپ دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ایک شخص کو مال و اسباب اور دوسرے کو نقد پندرہ ہزار روپے دے دیے گئے۔
۱۹۴۹ میں پندرہ ہزار روپے آج کی قیمت کے لحاظ سے کئی لاکھ روپے کے برابر تھے۔ جس شخص نے نقد رقم لی تھی ، اس نے جون پور کے ایک بازار میں کپڑے کی دکان کھول لی ۔ انھیں شروع ہی سے بڑا اچھا میدان ملا اور ایک سال میں ان کا سرمایہ دگنا ہو گیا۔ اپنے کاروبار کے دوسرے سال میں وہ اس طرح داخل ہوئے کہ ان کے سامنے ترقی اور کامیابی کا ایک نہایت وسیع دروازه کھلا ہو ا تھا۔
مگر اب ایک کمزوری نہایت آہستگی سے ان کے اندر داخل ہو گئی۔ وہ خرچ کے بارے میں لا پروا ہو گئے۔ اپنی ذات پر، بیوی بچوں اور دوستوں پر ان کا خرچ بے حساب بڑھ گیا ۔ وہ بھول گئے کہ دن بھر کی بکری ِ سے ایک ہزار روپے جو ان کے گلہ میں آئے ہیں ، ان میں سے صرف ۱۰فیصد ان کا ہے ۔ باقی ۹۰ فی صد مہاجن کا ہے۔ وہ اپنے گلہ کی رقم اس طرح خرچ کرنے لگے گویا یہ سارا روپیہ ان کی آمدنی ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے وکیل کی جیب میں فیس کی جو رقم آتی ہے وہ سب اس کی آمدنی ہوتی ہے۔
دکان داری کے ساتھ اس قسم کی شاہ خرچی نہیں چل سکتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند سال میں وہ دیوالیہ ہو گئے۔ ان کے پاس پندرہ ہزار میں سے ایک روپیہ بھی باقی نہ رہا۔
اس واقعہ کے بعد وہ تقریباً پندرہ سال تک زندہ رہے۔ مگر دوبارہ کوئی کام نہ کر سکے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ تم ایک "چلہ " دے دو تو تمہارا کام بن جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کیا۔ مگر قانون قدرت کی خلاف ورزی کی تلافی چلہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ان کی حالت بگڑتی رہی ۔ یہاں تک کہ پریشانی کے عالم میں وہ ۱۹۷۱ میں ایک جیپ سے ٹکراگئے اور سڑک ہی پر ان کاانتقال ہو گیا۔
زندگی میں ایک غلطی بھی سارے امکان کو برباد کر دیتی ہے اور آدمی کو ناکامی کے آخری کنارے پہنچا دیتی ہے۔
یہی قاعدہ زندگی کے تمام معاملات کا ہے۔ یہاں ہر "نیم " کے ساتھ ایک کیڑا ہے۔ یہاں ہر معاملہ کے ساتھ اس کی ایک کمزوری لگی ہوئی ہے۔ آدمی کو ان کمزوریوں سے آخری حد تک محتاط رہنا ہے۔ وہ جس معاملہ میں بھی غفلت برتے گا ، اس کی کمزوری اپنا کام کرے گی اور اس کے سارے معاملہ کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔
نیم کے درخت کا مالک اگر کیڑے کے خلاف احتجاج کرے تو کبھی ایسا ہونے والا نہیں کہ نیم کے تنہ میں کیڑے نہ لگیں ۔ اس کیڑے کا وجو د قانون قدرت کے اذن کے تحت ہے۔ اور جس چیز کے پیچھے قانون قدرت کا اذن شامل ہو ، اس کو ختم کر نا کسی بھی طرح ممکن نہیں ۔
اسی طرح انسانی زندگی کے معاملات میں جو "کیڑے" لگتے ہیں ، وہ بھی قانون قدرت کی بنا پر ہیں ۔ وہ بہر حال باقی رہیں گے ۔ ان کے خلاف احتجاج اور شکایت کا طوفان برپا کرنا سراسر لا حاصل ہے۔ ان کے مقابلے میں ہم کو بچاؤ کی تدبیر تلاش کر نا ہے نہ کہ ان کے خلاف احتجاجی نعرے لگانا۔
بچاؤ یا تحفظ اس دنیا کا ایک مستقل اصول ہے۔ اس دنیا میں وہی لوگ زندہ رہ سکتے ہیں جو اپنے بچاؤ کا اہتمام کرتے ہوں ، جو لوگ اپنے بچاؤ کی طرف سے غافل ہو جائیں، ان کے لیے خدا کی اس دنیا میں ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں۔