مشترک کمزوری
دین دیال ریسر چ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی )کی طرف سے ایک ماہانہ جرنل نکلتا ہے ۔ اس کا نام منتھن (Manthan) ہے۔ اس کے شمارہ دسمبر ۱۹۹۰ میں شری نانا جی دیش مکھ کا آرٹیکل چھپا ہے۔ اس کا موضوع ہے ––––– ہندستانی سیکولرزم پر نظرِثانی کی ضرورت :
Our brand of secularism needs a second look.
اس آرٹیکل میں موصوف یہ شکایت کرتے ہیں کہ اس ملک کے ہندو تو تقسیم کے بعد سیکولرزم کے اصولوں پر قائم رہے۔ مگر مسلمان اس پر قائم رہنے کا ثبوت نہ دے سکے۔ اس ذیل میں وہ کہتے ہیں کہ یقیناً مسلمانوں میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو واقعی سیکولر احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر وہ اپنے آپ کو اپنے فرقہ میں تقریباً غیر موثر اور مکمل طور پر علاحدہ پارہے ہیں :
Of course there are some well-meaning Muslim friends who display genuine secular feelings, but they find themselves almost ineffective and totally isolated within their own community (p. 10)
ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں مذکورہ ریمارک سے مجھے اختلاف نہیں۔ مگر میں کہوں گا کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ، یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا مشترک مسئلہ ہے ۔ اس ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی اکثریت کا مسئلہ ان کی بے شعوری ہے ۔ اس بے شعوری کی بنا پر ایسا ہو رہا ہے کہ جو شخص جوش و جذبات کی باتیں کرے وہ دونوں فرقوں میں مقبولیت حاصل کر لیتا ہے ۔ اور جو شخص سنجیدگی اور حقیقت پسندی کی بات کرے ، وہ دونوں فرقوں میں غیر مقبول ہو کر رہ جاتا ہے ۔
ہندوؤں کی اس کمزوری کا یہ نتیجہ تھا کہ آزادی کے بعد سردار پٹیل کو ملکی سیاست میں بڑا مقام ملا۔ مگر راج گوپال اچاری جیسا لائق آدمی ان کے درمیان عام قبولیت حاصل نہ کر سکا۔ وغیرہ آج دونوں فرقوں کی یہی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ اس کمزوری کو دور کرنے ہی پر ملک کی ترقی کا انحصار ہے ، اور اگر یہ کمزوری دور نہ ہوئی تو ملک کو بر بادی سے بچانے کی ہر کوشش نا کام ثابت ہوگی ۔