ایک خبر
۱۲ فروری ۱۹۹۱ کے ٹائمس آف انڈیا اور دوسرے اخبارات میں واشنگٹن کی ڈیٹ لائن کے ساتھ پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ چھپی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ۱۱ فروری کو دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ایک دوسرے سے خلیج کے مسئلہ پر بات چیت کی۔ حالاں کہ دونوں کے درمیان نصف کرۂ ارض کا فاصلہ تھا۔ ان میں سے ایک شخص واشنگٹن میں تھا اور
دوسر اشخص عمان میں ۔ واشنگٹن میں اے بی سی ٹیلی ویژن کا نمائندہ تھا اور عمان میں بیٹھا ہوا شخص وہ تھا جس کو دنیا اردن کے شاہ حسین کے نام سے جانتی ہے۔یہ گفتگو اور ملاقات جدید ٹیلی ویژن سسٹم پر ہوئی جو سٹلائٹ کے ذریعہ دونوں کی تصویریں اوران کی گفتگو ایک دوسرے کو بلا تاخیر پہنچا رہا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی دنیا میں یہ امکان اس لیے رکھا ہے تاکہ انسان یہ سوچے کہ جس دنیا میں انسان اور انسان کے درمیان اس قسم کی بعید ملاقات ممکن ہے، کیا وہاں خود خدا اور انسان کے درمیان اس قسم کی ملاقات ممکن نہ ہو گی ۔ قرآن اور حدیث میں اس سوال کا جواب موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ ایسی ملاقات ممکن ہے اور بلاشبہ ممکن ہے۔ شرط یہ ہے کہ آدمی اس کے ضروری تقاضوں کو پورا کرے ۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سجدہ کرو اور اپنے رب سے قریب ہو جاؤ وَٱسۡجُدۡ وَٱقۡتَرِب (العلق: 19) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا اور بندے کی نزدیکی کے لیے سجدہ وہی کام کرتا ہے جو انسان اور انسان کی نزدیکی کے لیے سٹلائٹ اور ٹیلی ویژن کرتا ہے۔
حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو (کأنک تراہ) اسی طرح ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بندہ جب عبادت اور دعا میں مشغول ہوتا ہے تو وہ اس وقت اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے (یناجی ربہ) اس سے معلوم ہوا کہ بندہ اپنے رب کو اس طرح پاسکتا ہے گویا کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
حتی کہ اس پر یہ تجربہ بھی گزرسکتا ہے کہ وہ محسوس کرے کہ وہ اپنے رب سے ہم کلام ہے ۔ تاہم یہ قربت اور مشاہدہ اور ہم کلامی تمام تر ایک روحانی تجربہ ہے نہ کہ کوئی مادی واقعہ ۔ خدا سے ملنا، حدیث کے الفاظ میں، گویا کہ خدا سے ملنا ہے، اور خدا کو دیکھنا گویا کہ خدا کو دیکھنا۔