بھلانے کی ضرورت
خارش کو کھجانے سے خارش بڑھتی ہے۔ مگر جس آدمی کو خارش ہو وہ کھجائے بغیر نہیں رہتا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ تلخ تجربات کا ہے۔ تلخ تجربات کو یاد کرنا صرف نقصان میں اضافہ کرنا ہے۔ مگر اکثر لوگ تلخ تجربات کو اپنی یادوں سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
اس دنیا میں ہر آدمی کو تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ زندگی ایک اعتبار سے، ناخوش گوار واقعات کا دوسرا نام ہے۔ ایسی حالت میں تلخیوں کو اور ناخوش گواریوں کو یاد رکھنا اپنے ذہن پر غیر ضروری بوجھ ڈالنا ہے۔ جو قصہ ماضی میں پیش آیا اس کو حال میں یا درکھنا صرف اپنے دکھ کا تسلسل جاری رکھنا ہے۔ اس کو کسی طرح عقل مندی نہیں کہا جا سکتا ۔
آپ کے ساتھ بر اسلوک دوسرا شخص کرتا ہے اگر اس برے سلوک کی یاد خود آپ کے اختیار کی چیز ہے پھر جو کچھ آپ کے دشمن نے کیا ، وہی آپ خود اپنے خلاف کیوں کریں۔
ماضی کی تلخیوں کو یاد رکھنا آدمی کے ذہن کو منتشر کرنا ہے ۔ وہ آدمی کی صحت کو برباد کرتا ہے۔ وہ آدمی سے اس کا حوصلہ چھین لیتا ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل نہیں رکھتا کہ وہ دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کر سکے۔ پھر آدمی کیوں اپنے آپ کو اس دہرے نقصان میں مبتلا کرے۔
اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی یہ لازمی شرط ہے کہ آدمی بھلانے کی عادت ڈالے۔ وہ گزرے ہوئے تلخ تجربات کو بھول جائے ۔ وہ کھوئی ہوئی چیزوں کے غم میں اپنے آپ کو نہ گھلائے۔ لوگوں کی اشتعال انگیز باتوں کو سن کر وہ اپنے سکون کو برہم نہ ہونے دے۔ اس قسم کی تمام چیزوں سے غیر متاثر رہ کر اپنا کام کرنا، یہ زندگی کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اور جو لوگ اس راز کو جانیں وہی اس دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
کھوئے ہوئے کی تلافی اپنے اختیار میں نہیں، مگر کھوئے ہوئے کو بھلا دینا اپنے اختیار میں ہے۔ ناخوش گوار الفاظ کو فضا سے نکالنا اپنے اختیار میں نہیں ، لیکن یہ آپ کے اپنے اختیار میں ہے کہ ناخوش گوار الفاظ کو اپنے ذہن سے نکال دیں۔ پھر آپ کیوں نہ ایسا کریں کہ ناممکن سے اپنی توجہ کو ہٹالیں اور ممکن کے حصول کے لیے اپنی ساری توجہ لگا دیں۔