قرآن خدا کی کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اُس کی بابت یہ اعلان کیا تھا کہ ––––– جن لوگوں نے نصیحت کی اس کتاب کا انکار کیا جب کہ وہ ان کے پاس آگئی، اور بے شک یہ ایک زبر دست کتاب ہے ۔ اس میں باطل نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ یہ حکیم وحمید کی طرف سے اتاری گئی ہے (حم السجدہ: ۴۱-۴۲)
تقریبا ً ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب قرآن اترا، اس وقت ان الفاظ کی حیثیت ایک پیشن گوئی کی تھی۔ آج یہ پیشن گوئی ایک تاریخی واقعہ بن چکی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتاب ایک استثنائی نوعیت کی کتاب ہے ۔ وہ ایک ایسے خدا کی طرف سے بھیجی گئی ہے جو تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرقسم کے مخالفانہ حالات کے باوجود یہ ممکن نہ ہو سکا کہ اس میں کوئی دخل اندازی یا بگاڑ واقع ہو، نہ براہ راست اور نہ بالواسطہ ۔
یہ کوئی سادہ سی بات نہیں، یہ ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ اس قسم کے ایک واقعہ کو اسباب کی دنیا میں ظہور میں لانے کے لیے کائناتی طاقتیں درکار ہیں۔ اس کو صرف خداوند عالم ہی ظہور میں لا سکتا ہے۔ اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خداوند عالم کی کتاب ہے ۔
اس پیشن گوئی کو عالم اسباب میں واقعہ بننے کے لیے ضروری تھا کہ ایک طاقتور انسانی گروہ مستقل طور پر اس کی پشت پر موجود رہے۔ پچھلے نبیوں کی تعلیمات اور اس کی تعلیمات میں غیر مطابقت پیدا نہ ہو۔ کوئی ادیب یا مفکر قرآن کا جواب لکھنے پرقادر نہ ہو ۔ کوئی نئی نبوت نبوت محمدی کی حریف بن کر نہ ابھر سکے۔ علوم انسانی کا ارتقاءاس کی کسی بات کو کبھی غلط ثابت نہ کرے ۔ تاریخ کا اتار چڑھاؤ کبھی اس پر اثر انداز نہ ہونے پائے ۔ قرآن کی زبان (عربی) ہمیشہ ایک زندہ زبان کی حیثیت سے باقی رہے۔ وغیرہ۔
قرآن کے نزول کے بعد سے اب تک کی لمبی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تمام اسباب حیرت انگیز طور پر اس کے حق میں جمع رہے ہیں۔ قرآن کے سوا کوئی بھی دوسری کتاب ایسی نہیں جس کے حق میں یہ غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہو ۔
قرآن کا یہ استثنائی معاملہ اس بات کا یقینی ثبوت ہے قرآن خدا کی کتاب ہے ، وہ کسی جن یا کسی انسان کی تصنیف نہیں ۔