جاپان میں دعوت

۲۶ اپریل ۱۹۹۱ کو جناب عبد القادر خاں صاحب (پیدائش ۱۹۳۶) سے ملاقات ہوئی وہ بمبئی میں رہتے ہیں (2615016 (Tel.انھوں نے بتایا کہ وہ بین اقوامی نمائش (70 Expo)کو دیکھنے کے لیے  ۱۹۷۰ میں جاپان (ٹوکیو ) گئے تھے ۔ وہاں وہ ایک ہفتہ تک رہے۔

وہ اپنے گروپ کے ساتھ ٹوکیو ایئر پورٹ پر اترے تو وہاں کچھ جاپانی باشندے پہلے سے موجود تھے۔ انھوں نے پیش کش کی کہ آپ میں سے جو صاحب ہمارے ساتھ قیام کرنا پسند کریں، ان کو ہم اپنے گھر لے جانے کے لیے  تیار ہیں۔ عبد القادر خاں صاحب جاپانیوں کو قریب سے دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ اس پیش کش کو قبول کرتے ہوئے وہ ایک جاپانی کے ساتھ چلے گئے۔

 عبد القادر صاحب کو ایک ہفتہ تک اس جاپانی خاندان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ دن کا بیشتر وقت با ہر نمائش وغیرہ دیکھنے میں گزرتا۔ شام کو وہ جاپانی کے گھر آجاتے اور رات اس کے یہاں گزار تے تھے۔ چوں کہ جاپانی نے اپنے گھر ٹھہرانے کے لیے  کوئی معاوضہ نہیں لیا تھا ، ان کو خیال ہوا کہ وہ انھیں کوئی تحفہ دیں۔ چنانچہ انھوں نے ٹوکیو میں جاپانی ساخت کا ایک کیمرہ خریدا اور اس کو اپنے میزبان کے بچہ کو بطور تحفہ پیش کیا۔

جاپانی میزبان نے تحفہ قبول کر لیا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ یہ کیمرہ آپ نے جہاں سے خریدا ہے، اس نے آپ کو اس کی رسید دی ہوگی ۔ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ جاپانی نے بہت نرمی اور شرمندگی کے ساتھ کہا کہ بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ وہ رسید ہم کو دے دیں، چنانچہ عبد القادر صاحب نےوہ رسید انھیں دے دی۔

تاہم عبد القادر صاحب کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ جاپانی نے کیوں ایسا کیا۔ آخر رسیدکو لے کر وہ اس کو کیا کرے گا۔ انھوں نے معافی مانگتے ہوئے اپنے جاپانی میزبان سے کہا کہ اگر کوئی ہرج نہ ہو تو آپ مجھے یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں کہ کیمرہ کی رسید کیوں آپ نے طلب فرمائی۔

 جاپانی نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ آپ یہاں ٹورسٹ (سیاح) کے طور پر آئے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ قاعدہ ہے کہ ٹورسٹ لوگوں کو جاپانی مصنوعات خصوصی رعایت پر دی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کیمرہ  آپ کو چالیس فی صد کم قیمت پر دیا گیا ہو گا۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ کیمرہ ملک کے باہر جا رہا ہو ۔مگر اب یہ کیمرہ ملک کے اندر رہے گا اس لیے  اب اس پر رعایت کا حق باقی نہیں رہتا۔ آپ سے یہ رسید ہم نے اس لیے  لی ہے کہ ہم اس کو لے کر دکان پر جائیں گے اور وہاں اس کی بقیہ قیمت ادا کریں گے۔ تا کہ ہماری وجہ سے جاپان کا قومی نقصان نہ ہونے پائے۔

اس قسم کے واقعات بار بار الرسالہ میں آتے رہے ہیں۔ وہ جاپانیوں کے قومی کیرکٹر کو بتاتےہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاپانی لوگ کتنے زیادہ با اصول اور باکردار ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جاپان کے باشندے اپنی فطرت پر ہیں۔ وہ اپنے فطری اوصاف پر قائم ہیں۔ اور فطری اوصاف جب شرعی اوصاف کی صورت اختیار کر لیں تو اسی کا نام اسلام ہے۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جس میں فرمایا گیا ہے کہ جاہلیت میں جو لوگ بہتر ہوں وہی اسلام میں بھی بہترہوتے ہیں ۔خِيَارُكُمْ ‌فِي ‌الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ( مسند أحمد،۱۰۲۹۶)

ایک سفر میں میری ملاقات ایک جاپانی نومسلم سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ جاپانی لوگ اپنی فطری استعداد کی بنا پر اسلام سے بہت قریب ہیں۔ جاپانی قوم بالقوہ طور پر مسلمان ہی ہے:

Japanese people are potentially Muslims.

آج سخت ترین ضرورت ہے کہ جاپانیوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔ مگر اس کے لیے  جاپانی زبان کو جاننا بہت ضروری ہے۔ کاش ہمارے کچھ نوجوان اس مقصد کے لیے  اپنے آپ کو وقف کر سکیں۔ وہ جاپانی زبان سیکھ کر اس میں بخوبی واقفیت حاصل کریں اور پھر جاپان جاکر وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت پہنچائیں۔

 اسلام دین فطرت ہے۔ وہ ان لوگوں کو فوراً اپیل کرتا ہے جنھوں نے اپنی فطرت کو بچایا ہو،جنہوں نے اپنی فطرت کو بگڑنے سے محفوظ رکھا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom