سفر نامہ امریکہ- ۲
اتوار کی صبح کو میں اور صغیر اسلم صاحب فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آئے تو ان کے مکان کے گیٹ پر اخباروں کا ایک بڑا بنڈل پڑا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ کیسا اخبار ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک اخبار ہے ۔ اتوار کو خاص طور پر وہ لوگ بہت زیادہ صفحات شامل کرتے ہیں ۔ پھر انھوں نے لطیفہ سنایا کہ میرے بھائی وطن سے آئے۔ صبح کو اسی طرح انھوں نے اخبار کا بنڈل دیکھا تو کہنے لگے غلطی سے وہ سارے محلہ کا اخبار یہیں چھوڑ گیا۔
ایک سفید فام امریکی نے بتایا کہ وہ ایک جاب کے سلسلے میں کچھ دنوں مصر میں رہا ہے۔ اس نے کہا کہ وہاں مسلمانوں کو مجھے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھ کو اسلام کا طریقہ بہت اچھا لگا۔" اسلام کی کون سی بات آپ کو اچھی لگی"۔ اس سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ وہاں میں نے دیکھا کہ مسلمان اپنے والدین کو عزت کے ساتھ أبی (میرے باپ) اور اُمی (میری ماں ) کہتے ہیں۔ ہم لوگ امریکہ میں اپنے والدین کو عام آدمیوں کی طرح صرف ان کے نام سے پکارتے ہیں۔ مجھ کو امریکی طریقہ کے مقابلے میں اسلام کا طریقہ زیادہ پسند ہے ۔
امریکہ میں آزادانہ تہذیب کے نتیجے میں وہ رشتہ بالکل ٹوٹ گیا ہے جو فطری طور پر والدین کے ساتھ اولاد کا ہوتا ہے۔ انسان اب بھی اپنی سابقہ فطرت پر پیدا ہو رہے ہیں، مگر عملی ماحول فطرت کی اس آواز کے مطابق نہیں۔ اس طرح فطرت اور معاشرتی ماحول کے درمیان عدم مطابقت پیدا ہوگئی ہے۔ انسان اپنے آپ کو ایک مصنوعی قید میں محسوس کرنے لگا ہے۔ ایسی حالت میں اسلام کی دعوت کے زبر دست مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر یہ مواقع اسلام کی دعوت کو روحانی انداز میں پیش کرنے کے لیے ہیں نہ کہ اسلام کی دعوت کو سیاسی انداز میں پیش کرنے کے لیے ۔
۲۱ جون ۱۹۹۰ کو شمالی ایران میں جو زلزلہ آیا تھا اس کا مرکز دیلم تھا ، مگر اس کے ہلکے جھٹکے سوویت یونین کے اندر آذربائیجان تک محسوس کیے گئے ۔ اس زلزلہ میں تقریباً ۶۰ ہزار آدمی مرگئے ۔ اور اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں زخمی ہوئے۔ اس طرح کے زلزلوں میں موت کا زیادہ بڑا سبب مکانوں کا گرنا ہوتا ہے۔ اگر مکانات نہ گریں تو بہت کم موتیں واقع ہوں۔ امریکہ میں بھی زلزلے آتے ہیں۔ مگر یہاں اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوتا جتنا ایران اور روس میں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مکانات بالکل دوسرے انداز سے بنائے جاتے ہیں۔
ارضیاتی سائنس میں غیر معمولی ترقیوں کے باوجود، زلزلہ کی پیشن گوئی ابھی تک ایک مایوس کن شعبۂ علم (Frustrating Science) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اس کا امکان نہیں کہ لوگوں کو زلزلہ کی آمد کی پیشگی اطلاع دے دی جائے اور لوگ گھروں سے باھر نکل آئیں۔ البتہ ایک چیز بڑی حد تک ممکن ہے ، اور وہ ہے مکانات کو اس طرح بنا نا کہ وہ زلزلہ کے جھٹکے کوسہ لیں اور گرنے سے بچ جائیں۔
اس مقصد کے لیے موجودہ زمانے میں ارتھ کو ئیک انجنیر نگ وجود میں آئی ہے۔ اس کے مطابق اب ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے مکانات بنائے جاتے ہیں جن کا ڈھانچہ (Floating foundations) فلوٹنگ فاؤنڈیشن کے اصول پر بنایا جاتا ہے۔ زلزلہ کے جھٹکے آتے ہیں تو یہ مکا نات زیادہ تر ہلتےہیں، وہ گر نہیں پڑتے ۔
امریکہ میں سان فرانسسکو بھی اسی طرح زلزلہ کا علاقہ ہے ،جس طرح ایران کا شمالی حصہ زلزلہ کا علاقہ ہے۔ ۱۹۸۹ میں سان فرانسسکو میں تقریباً اسی شدت کا زلزلہ آیا جیسا کہ ایران کا مذکورہ زلزلہ تھا ، مگر سان فرانسسکو کے اس زلزلہ میں صرف ۲۷۵ مو تیں ہوئیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سان فرانسسکو کے مکانات جدید ٹیکنیک کے مطابق بنائے گئے ہیں۔
ایران کے زلزلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اخبار نے لکھا تھا کہ ایران ایک زلزلہ والے علاقہ میں واقع ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے تیل کی دولت کا ایک حصہ خطرہ والے مقامات پر زلزلہ روک مکانات کی تعمیر پر لگائے جو فطرت کے غضب کا شکار ہوتے رہتے ہیں:
Iran, sitting on a veritable seismic volcano, must divert part of its oil-rich economy to building quake-resistant structures at places which have been subjected to nature's fury.
ایران کا نام نہاد اسلامی انقلاب امریکہ سے نفرت کی بنیاد پر آیا۔ ایران کی طاقت کا سب سے بڑا حصہ یہ ثابت کرنے پر صرف ہو رہا ہے کہ امریکہ شیطان اکبر ہے ، ایسی حالت میں اگر وہ امریکہ سے کوئی مفید سبق نہ لے سکا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کاحال عام طور پر یہی ہے ۔ موجودہ زمانہ کا مسلمان اقوام غیر کی نفرت میں جیتا ہے، اس لیے وہ ان سے تعمیری سبق نہیں لے پاتا ۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ اصلاً ہندستانی ہیں ، مگر عرصہ سے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیوں آپ نے انڈیا کو چھوڑ کر امریکہ میں رہنا پسند کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہاں پیس (امن )ہے، جبکہ انڈیا میں پیس نہیں۔
میں نے کہا کہ بات یوں نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ آپ لوگ امریکہ میں پیس کی قیمت ادا کر رہے ہیں ، اس لیے یہاں آپ لوگوں کو پیس حاصل ہے۔ انڈیا میں آپ پیس کی قیمت دینے کے لیے تیار نہیں، اس لیے وہاں آپ کو پیس بھی حاصل نہیں ۔
انھوں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب ۔ میں نے ان کو مناره (The Minaret) کا شمارہ (1989Fall ) دکھایا ۔ یہ امریکہ کا ایک اسلامک میگزین ہے جو لاس اینجلیز سے شائع ہوتا ہے ۔ مذکورہ شمارہ میں ایک مسلمان کا انٹرویو چھپا ہے۔ وہ کیلی فورنیا کے اسلامک سنٹر کے ترجمان ہیں، نیز امریکہ کی مسلم پبلک افیرس کے اکزیکٹیو ڈائرکٹر ہیں ۔ انٹرویو کا ایک سوال وجواب یہ تھا:
Q. What about cases of discrimination and violence against Muslims during the decade?
A. Such incidents multiplied in the 80's. Mosques were the target of vandalism. Muslim leaders were attacked verbally and physically. People like Ismail Farooqi and Yusuf Bilal were killed. In a pluralistic society where several interest groups work to outdo each other, these kinds of brutal acts are not uncommon. What was sad was that the Muslim community did not pursue these cases vigorously. Farooqi is almost forgotten. So is Bilal.
سوال :پچھلے دہے میں امریکی مسلمانوں کے خلاف امتیاز اور تشدد کی حالت کیسی رہی۔
جواب :اس دہے کے دوران ہر قسم کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ امریکہ میں مسجدیں غارت گری کا نشان بنیں وہاں مسلم رہنماؤں پر زبانی اور جسمانی حملے کیے گئے اسماعیل فاروقی اور یوسف بلال جیسے لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ مشترک سماج جس میں مفادات رکھنے والے گروہ ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہوں، وہاں اس قسم کے وحشیانہ واقعات غیر معمولی نہیں ہیں۔ مگر جو بات رنج کی ہے وہ یہ کہ یہاں کے مسلمانوں نے ان کے لیے زور دار طور پر کچھ نہیں کیا۔ فاروقی کو تقریباً بھلا دیا گیا ہے ، اور اسی طرح بلال کو بھی ۔
میں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات انڈیا میں ہوتے ہیں تو وہاں کے مسلمان ان کے خلاف جلسے جلوس کے ہنگامے کھڑے کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کش مکش بڑھتی ہے جو عمومی فساد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کے مسلمان، ان واقعات کو نظر انداز کرتے ہیں، اس لیے یہاں عمومی فساد کی نوبت نہیں آتی۔
اشالی ور ما ایک ہندستانی نوجوان ہیں۔ وہ پچھلے ایک سال سے امریکہ میں رہتے ہیں۔ ہندستان میں انھوں نے انگلش اسکول میں تعلیم پائی۔ انگریزی لٹریچرکا کثرت سے مطالعہ کیا۔ اب وہ کافی اچھی انگریزی بولتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ امریکی ان کی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ تم تو ابھی ایک سال سے امریکہ میں ہواور تم اتنی اچھی انگریزی بول رہے ہو :
You've only been here a year and you speak English so well!
انھوں نے کہا کہ عام امریکی بیرونی دنیا کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ مجھے یہ جان کر سخت دھکا لگا کہ اگر چہ ہم امریکہ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، مگر خود امریکی بقیہ دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے :
It came as a shock to me that, though we knew everything about America, the Americans knew next to nothing about the rest of the world.
امریکیوں کیا یہی حال اسلام کے بارے میں ہے۔ عام امریکی اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ ایک امریکی نے گفتگو کے دوران کہا کہ ہم نے اسلام کے بارے میں پہلی بار اس وقت جانا جب ہم نے سنا کہ ایران میں اسلامک ریولیوشن آ گیا ہے اور وہاں کی اسلامی گورنمنٹ نے امریکی سفارت خانہ میں کام کرنے والے امریکیوں کو یر غمال (hostage) بنا لیا ہے ، اور جو لوگ ان کے مخالف ہیں ان کو پکڑ پکڑ کر انھیں گولی ماری جار ہی ہے۔
مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ مغربی میڈیا مسلم دنیا کے صرف برے واقعات کو نمایاں کرتا ہے۔ مگر یہ شکایت بالکل بے معنی ہے کیوں کہ موجودہ دنیا میں ہمیشہ یہی ہو گا ۔ خود مسلمانوں کے اخبار اور رسالے اور کتابوں میں مغربی دنیا کے صرف برے واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ پھر ایسی شکایت سے کیا فائدہ۔
اس مسئلہ کا حل شکایت نہیں۔ اس کا حل صرف دو میں سے ایک ہے ۔یا تو مسلمان ایک عالمی میڈ یا پیدا کریں اور اس کو اتنا ترقی یافتہ بنائیں کہ دوسری قومیں اس کو دیکھنے اور پڑھنے پر مجبور ہو جائیں۔ اور اگر مسلمان ایسا نہیں کر سکتے تو دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ وہ ان واقعات سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچا ئیں جن کو مغربی میڈ یا "دہشت گردی" کا عنوان دے کر اپنے یہاں پیش کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور صورت اس بد نامی سے بچنے کی نہیں ہو سکتی۔
امریکہ میں حال ہی میں ایک کتاب جاپان کے بارے میں چھپی ہے۔ اس کے مصنف ۵۰ سالہ امریکی عالمِ معاشیات پیٹ کوٹ ہیں اور اس کا نام ہے اثر ورسوخ کے ایجنٹ :
Pat Choate, Agents of Influence.
اس کتاب پر دو صفحہ کا تبصرہ امریکی جریدہ ٹائم (۸ اکتوبر ۱۹۹۰) میں چھپا ہے۔ اس تبصرہ کا عنوان ہے ––––– کیا واشنگٹن جاپان کی جیب میں ہے :
Is Washington in Japan's Pocket?
یہ ایک معلوماتی کتاب ہے۔ اس میں بہت سے اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں۔ اور یہ نتیجہ نکالاگیا ہے کہ امریکہ میں جاپان کی تجارتی کامیابی کا خاص راز جاپان کی تجارتی لابی ہے۔ جاپان کی تجارتی کمپنیاں امریکہ کے بڑے بڑے سابق افسران کو بھاری قیمت دے کر خرید لیتی ہیں اور ان کے ذریعہ امریکہ میں اپنے تجارتی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ جاپان تقریباً ایک سو ملین ڈالر ($100 million) سالانہ خرچ کرتا ہے ۔ حتی کہ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن کو جاپان بلایا گیا تاکہ وہ وہاں لکچر دیں۔ اس کے لیے ریگن کو ۲ ملین ڈالر ادا کی ے گئے۔
اس قسم کے اعداد و شمار بظا ہر صحیح ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ ایک مبالغہ آمیز بات ہے کہ صرف اس چیز کو جاپان کی اقتصادی کامیابی کا سبب بتایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جاپان کے اندر اگر ذاتی صلاحیت نہ ہوتی تو محض "لابی" کی تدبیر اختیار کر کے وہ کبھی کامیابی کا مقام حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی بیشتر تعداد وہ ہے جس کی دلچسپیوں کا مرکز صرف "ڈالر "ہے۔ تاہم ایک تعداد وہ ہے جو اسلام کے بارے میں لکھتی اور بولتی ہے۔ ان لوگوں سے آپ بات کریں تو وہ متفقہ طور پر کہیں گے کہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمارے بزرگ رہنما ۱۹۴۷ سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ برطانیہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔
میں دونوں ہی گروہوں کو نادان سمجھتا ہوں۔ یہ ایک سطحی طرزفکر ہے کہ کسی شخص یا کسی قوم کو نامزد کر کے کہا جائے کہ بس یہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ تاہم دونوں گروہوں میں ایک فرق ہے۔ ماضی کے بزرگوں نے جس برطانیہ کو اسلام کا دشمن سمجھا ، اس سے انھوں نے مکمل طور پر قطع ِتعلق کر لیا، مگر حال کے اسلام پسند جس امریکہ کو دشمن بتاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو ڈالر کے عوض عین اسی دشمن کے ہاتھ فروخت کیے ہوئے ہیں۔
ہماری قیادت کا دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے "ہندو دشمن "سے بچنے کے لیے پاکستان بنایا مگر جب پاکستان بن گیا تو معلوم ہوا کہ ترقی کے تمام اعلیٰ ذرائع باہر کے "اسلام دشمن "ملکوں میں ہیں ۔ چنا نچہ پاکستان بننے کے بعد وہاں کے تمام بہترین دماغ مملکتِ خداداد سے نکل کر امریکہ جیسے ملکوں میں پہنچ گئے۔ آج پاکستان کے پاس اپنی قوم کا صرف "بھس" ہے۔ اس کا "گندم " تقریباً سب کا سب امریکہ کی سرزمین میں اتر چکا ہے اور اسی طرح دوسرے مغربی ملکوں میں۔
امریکی آدمی اگر آپ کو کسی پارک میں ، ہوائی جہاز میں، ایر پورٹ پر یا اور کسی مقام پر ملے تو بظاہر وہ آپ سے بالکل غیر متعلق دکھائی دے گا۔ لیکن اگر آپ اس سے کہیں کہ "معاف کیجیے ، کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں " تو وہ فوراً آپ کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور پوری دلچسپی کے ساتھ آپ کے سوال کا جواب دے گا۔
ایک امریکی سے میں نے پوچھا کہ کیا امریکی لوگوں کا کیس کھوئی ہوئی روح (Lost souls) کا کیس ہے۔ وہ ہنسا۔ اس نے کہا کہ مشرق کے لوگ ہمارے بارے میں ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقۃ ً ایسا نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ مگر حال میں نیو واشنگٹن پوسٹ نے اے بی سی (ABC) کے ذریعہ جو او پی نین پول کر ایا ہے ، اس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکہ اس وقت بڑے پیمانہ پر ایک قومی مایوسی (national pessimism) میں مبتلا ہے۔ اس پول کے مطابق ، ستر فی صد، یعنی ہر پانچ میں سے چار امریکی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ملک غلط راستہ پر چلا گیا ہے :
Seventy per cent, or four out of five Americans, feels that their country has gone off on the wrong track.
یہ سن کر وہ دیر تک چپ رہا۔ پھر سنجیدگی کے ساتھ بولا کہ –––––– اس مادی دنیا میں خوشی ہمیشہ ایک نہ ملنے والی چیز بنی رہے گی۔ مگر اس کی تلاش کی خوشی بھی بہت قیمتی ہے جس میں آدمی ساری عمر لگا رہے ۔ اکثر امریکیوں کا یہی خیال ہے :
Happiness must ultimately remain an elusive commodity in this mortal world but the pleasures of its pursuit are well worth spending a lifetime on. Most Americans seem to believe this.
یہ مجبوری بھی کیسی عجیب ہے کہ آدمی خوشی کو تلاش کرنے پر مجبور ہو مگر وہ خوشی کو کبھی پا نہ سکے۔
۳۰ نومبر کو صغیر اسلم صاحب کے گھر والے نہیں تھے۔ دوپہر کو انھوں نے خود کھانے کا انتظام کیا۔ جدید طرز کے باورچی خانہ میں میں کھانے کی میز کے سامنے بیٹھ گیا ۔ انھوں نے فریج سے سالن نکال کر اس کو پلیٹ میں رکھا اور اس کو گرم کرنے کے لیے مائیکروویو اووین (microwave Oven) کے خانہ میں ڈال کر بند کر دیا۔ اس کے بعد ۶۰ سکنڈ پر ایڈ جسٹ کر کے اس کا سوئچ دبا دیا۔ اب اووین کے اوپر روشن حروف میں الٹا شمار(count down) ہونےلگا۔۵۵،۵۶،۵۷،۵۸،۵۹،۶۰ ، اس طرح ایک ایک سکنڈ گھٹتا رہا۔ یہاں تک کہ زیر و پر پہنچ کہ خاص آواز میں ایک سیٹی بجی اور پھر وہاں روشن حروف میں ختم (end) لکھ اٹھا۔
میں نے کہا کہ اسی طرح اللہ تعالی نے انتہائی قطعیت کے ساتھ دنیا کی عمر مقررکرکے اس کا سوئچ دبا دیا ہے ۔ اب ہر لمحہ اس کا کاؤنٹ ڈاؤن ہو رہا ہے ۔ جیسے ہی یہ کاؤنٹ ڈاؤن اپنی آخری گنتی پر پہنچے گا فوراًصور کا خدائی بگل بج جائے گا۔ یہ موجودہ دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہوگا۔ اس کے بعد آخرت کی دنیا شرع ہوگی ۔ اور پھر خدا کے وفادار بندے کامیاب قرار دیے جائیں گے اور جن لوگوں نے سرکشی کی وہ ناکامیوں کے غار میں دھکیل دیے جائیں گے تاکہ ابد تک اس میں حسرت والم کے ساتھ پڑے رہیں۔
صغیر اسلم صاحب ( پیدائش ۱۹۵۱) اس بات کی مثال ہیں کہ ایک شخص اپنے کر دار سے اغیار کی نظر میں بھی کتنا زیادہ قابلِ قدر بن سکتا ہے۔ یہاں میں نے صغیر اسلم صاحب کی ایک فائل دیکھی ۔ اس سے ایک بڑی سبق آموز بات معلوم ہوئی ۔ اس کا خلاصہ یہاں درج کرتا ہوں ۔
امریکہ میں کپڑے کی ایک بہت بڑی ریٹیل کمپنی ہے۔ اس کے بہت سے اسٹور ہیں۔ اس کا نام مروین(Mervyn) ہے۔ اس کو ملک میں پھیلے ہوئے اپنے اسٹوروں کو کپڑا فراہم کرنے کے لیے بڑے پیمانہ پر کپڑے کی خریداری کرنی پڑتی ہے ۔ یہ خریداری امریکہ کے علاوہ بہت سے باہر کے ملکوں سے بھی ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے اس کمپنی کو ایک بائر (Fabric Buyer) درکار تھا۔ مروین نے لائق آدمی کی تلاش کے لیے کیلی فورنیا کے ایک بڑے کنسلٹنٹ (Jack H. Lane Agency) کو ہائر کیا۔
اس کمپنی نے ملک بھر میں تحقیق کر کے معلوم کیا کہ کون شخص ہے جو اس کام کے لیے موزوں ہے ۔ اس کو معلوم ہوا کہ صغیر اسلم صاحب اس کام کے لیے موزوں ترین آدمی ہیں۔ اس کے بعد اس نے ان کمپنیوں کے پتے معلوم کیے جن سے صغیر اسلم کا اپنے کپڑے کے بزنس کے سلسلے میں بار بار سابقہ پیش آتا ہے۔ جیک لین نے ان کمپنیوں سے ربط قائم کر کے ان کی رائے صغیر اسلم صاحب کے بارے میں معلوم کی ان کے جوابات کی فوٹو کاپی صغیر اسلم صاحب کو بھیجتے ہوئے جیک لین نے صغیر اسلم صاحب کو یہ پیش کش کی کہ وہ مروین کمپنی کے اس عہدہ کو قبول کر لیں۔ امریکی تاجروں نے صغیر اسلم صاحب کے بارے میں جو رائیں دیں، ان میں سے چودہ رایوں کو میں نے پڑھا۔ چند خطوط کے بعض الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
1. One of the most astute buyers. Integrity without question. Works hard and intelligently. Far above average. Well organized. World recommend him 101%.
2. Aslam is the Number one buyer in the country.
3. He is knowledgeable. Well informed and most important-incorruptible.
4. He is fair and honest. He gets the last drop of blood for his company.
5. If he says something, you can believe him.
6. Never in my experience in the agency business have I had references that were as outstanding as the ones I received on you.
آخری ریمارک جیک لین کا ہے جس نے مختلف لوگوں سے رائیں طلب کی تھیں ––––– اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص اگر لیاقت کا ثبوت دے تو وہ کس طرح ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے لیے اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا ہے۔ لائق آدمی کے لیے اس دنیا میں کوئی بھی دروازہ بند نہیں۔
نومبر کے آخری دو جمعہ کی نمازیں اسلامک سوسائٹی آرنج کاؤنٹی کی مسجد میں پڑھیں۔ میں وہاں پہنچا تو لوگ منتشر نظر آرہے تھے۔ اذان ہوتے ہی تمام لوگ با قاعدہ صف کی صورت میں جمع ہو گئے۔ اس طرح صف بندی کے ساتھ انھوں نے سنتیں پڑھیں۔ خطبہ کے بعد جب جماعت کھڑی ہوئی تو ہر آدمی اپنی اپنی جگہ کھڑا ہو گیا اور کسی انتشار کے بغیر اپنے آپ صفیں قائم ہوگئیں ۔ صف بندی کا یہ طریقہ مجھے پسند آیا۔
دونوں جمعہ میں ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی صاحب (پیدائش ۱۹۴۳) نے انگریزی میں خطبہ دیا ۔یہاں جمعہ کی امامت انھیں سے متعلق ہے۔ مزاج اور علمی لیاقت دونوں اعتبار سے وہ اس عہدہ کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ پہلے خطبہ میں انھوں نے آخرت کی جواب دہی کے موضوع پر تقریر کی۔ دوسرے جمعہ کے خطبہ میں ان کی تقریر کا موضوع توحید تھا۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان کے نزدیک سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز صرف اللہ ہے :
The ultimate concern of a Muslim is Allah.
صفی قریشی صاحب نہایت ذہین اور اسی کے ساتھ نہایت سنجیدہ آدمی ہیں۔ ان سےگفتگو کرنا میرے جیسے آدمی کے لیے ایک نہایت خوش گوار تجربہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ نہ زیادہ بولتے اور نہ غیر ضروری بات کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو ہمیشہ منطقی حدود کی پابند ہوتی ہے۔ اور ایسے آدمی ہمیشہ بہت کم پائے جاتے ہیں۔
صفی قریشی صاحب نے ایک ملاقات میں ایک انگریزی کتاب کا تذکرہ کیا۔ انھوں کہا کہ میں اس کتاب کو پڑھ کر بہت متاثر ہوا ، اور اس کتاب کے کئی نسخے خرید کر میں نے مختلف لوگوں کو بطور تحفہ دیا :
Islam and the Destiny of Man, by Gai Eaton George Allen & Unwin, London 1985. pp-242
میں نے اس کتاب سے دلچسپی ظاہر کی تو انھوں نے اس کا ایک نسخہ مجھے بھی دیا۔ گائی ایٹن ایک انگریز ہیں۔ وہ برٹش ڈپلومیٹک سروس میں تھے ۔ اس سلسلے میں وہ دوسرے ملکوں کے علاوہ مصر اور ہندستان میں بھی رہے ہیں ۔ ٹی ایس الیٹ (T.S. Eliot) کی فرمائش پر انھوں نے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا موضوع یہ تھا:
Eastern religions and their influence upon Western Thinkers.
اس کتاب کے مطالعے کے دوران وہ اسلام سے متاثر ہوئے ۔ یہاں تک کہ ۱۹۵۱ میں انھوں نے مصر میں اسلام قبول کرلیا ۔
اس کتاب کو میں نے دیکھا ۔ میں اس کے تمام مندرجات سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ تاہم کتاب میں ایک نیا پن ہے اور وہ قابل مطالعہ ہے ۔ مصنف کے نزدیک ، اسلام کا خلاصہ دو چیزیں ہیں : حق اور رحمت ( Truth and Mercy) تقوی کی تشریح انھوں نے ان الفاظ میں کی ہے :
...the awe-struck consciousness of God as the supreme Reality (p. 202)
۲ دسمبر کی صبح کو ایک صاحب کے یہاں ناشتہ پر کئی آدمی جمع تھے ۔ ایک صاحب نے خلیج کے مسئلہ کے بارے میں سوال کیا ۔ میں نے کہا کہ اس مسئلہ میں میری وہی رائے ہے جو عام طور پر علماء کی رائے ہے۔ علماء کی رائے نہایت تفصیل کے ساتھ آچکی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ تذکیری باتوں پر گفتگو کریں جن کے بارے میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے۔
پھر میں نے کہا کہ ابھی ہم لوگوں نے ایک کھا نا ختم کیا ہے۔ کھانے کے بعد کے لیے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَني، وَسَقَاني، وَجَعَلني مُسْلِمِينَ (المصنف - ابن أبي شيبة،۲۹۵۶۳)
اس اللہ کا شکر اور تعریف ہے جس نے مجھے کھانا کھلایا اور جس نے مجھے پانی پلایا اور جس نے مجھے مسلمانوں میں سے بنایا۔
اس دعا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اس کے الفاظ کو یاد کر لے اور کھانے کے بعد اسےاپنی زبان سے دہرا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعا اپنے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب ہےنہ کہ محض اپنے الفاظ کے اعتبار سے۔ آپ اگر کسی سے کہیں کہ میرا فلاں ٹیلی فون نمبر ہے ، تم اس نمبر پر مجھے کال کر لینا ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ اس گنتی کو یا دکر کے اسے اپنی زبان سے دہرا تار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ٹیلی فون کے اوپر اس نمبر کو ڈائل کر کے آپ سے ربط قائم کرے۔
یہی دعا کا معاملہ ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جب آپ دعا کے یہ الفاظ پڑھیں تو آپ کا ذہن ان کے معانی کی طرف چلا جائے۔ آپ سوچیں کہ خدا نے کس طرح وہ کھانا اور پانی بنا یا جو میری بھوک اور پیاس کو مٹائے اور میری زندگی کی طاقت بنے۔ جب آپ اس طرح سوچیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ ایک عظیم تخلیق کا معاملہ ہے۔ خدا نے کائناتی انتظام کے تحت نان فوڈ کو فوڈ میں کنورٹ کیا ، اس نے نان واٹر کو واٹر میں کنورٹ کیا، اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ آپ اس کو کھائیں پییں اور اور وہ آپ کے جسم میں داخل ہو کر آپ کا گوشت اور خون بنے۔
اسی طرح خدا نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ اپنے نان اسلام کو اسلام میں کنورٹ کریں ، اس کے بعد ہی یہ واقعہ پیش آیا کہ آپ کے اندر ایک اسلامی شخصیت ایمرج کرے۔ ان عظیم انعامات کا احساس جب لفظوں میں ڈھلتا ہے تو وہ مذکورہ کلمہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
لاس اینجلیز میں افرو امریکی مسلمانوں کی ایک تنظیم ہے ۔ اس کا نام مسجد السلام ہے۔ اس کی طرف سے لاس اینجلیز میں ۲۳ - ۲۵ نومبر ۱۹۹۰ کو بڑے پیمانے پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کا نفرنس کی تھیم یہ تھی ––––– مسلم خاندان کس طرح بنایا جائے :
The making of a Muslim family
اس کا نفرنس کے شرکاء میں امریکہ کے علاوہ دوسرے ملکوں کے ممتاز افراد کے نام بھی شامل تھے ۔ مثلاً امام وارث دین محمد ، پرنس محمد بن فیصل ، دکتور جمال بدوی ، وغیرہ ۔ میں بھی اس کا نفرنس میں مدعو تھا۔ اس سلسلہ میں دو دن ۲۴ - ۲۵ نومبر ) لاس اینجلیز میں قیام رہا۔ قیام کا انتظام اور کا نفرنس کا اجلاس دونوں کا نظم یہاں کے مشہور ہوٹل اسٹوفرس (Stouffers Hotel) میں کیا گیا تھا۔
اپنے کمرہ نمبر ۳۶۴ میں ایک روز میں نے خبریں سننے کے لیے ٹی وی کھولا۔ ایک خبر صدر بش کی خلیج سے واپسی کی تھی۔ مسٹر بش اور مسنربش ہوائی جہاز سے ہنستے ہوئے اترے تو ان کے ساتھ ایک کتا بھی اتر اجو ان کے پیچھے چلنے لگا۔ مجھے قرآن کی وہ آیت یاد آئی جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان تجارت اور لہو میں مشغول رہتا ہے ، اور خدا کی یاد کو چھوڑ دیتاہے (الجمعہ:۱۱) آج کا انسان اس کا مکمل مصداق ہے۔ آج کے انسان کی دلچسپی کی چیز صرف دو ہے۔ مفاد یا تفریح۔ اصل یہ ہے کہ انسان اپنے خالق اور مالک کی یاد میں مشغول ہو مگر اس اصل مشغولیت کے لیے کسی کے پاس کوئی وقت نہیں۔
پروگرام کے مطابق ۲۵ نومبر کی شام کو میری تقریر ہوئی۔ میں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ کی مسلم نسلوں کے لیے تہذیبی ارتداد (cultural conversion) کا مسئلہ درپیش ہے۔ ترکی اور ہندستان اور روس میں بھی یہی مسئلہ پیدا ہوا ، لیکن وہاں عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں یہ مسئلہ جارحانہ چیلنج کی صورت میں پیش آیا ۔ اور جب کسی کو جارحانہ انداز میں چیلنج کیا جائے تو اس کے اندر مدافعانہ جذ بات جاگ اٹھتے ہیں جو اس کی حفاظت کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ امریکہ میں یہ مسئلہ اس لیے شدید ہے کہ یہاں کا چیلنج جارحانہ چیلنج نہیں ۔ جارحانہ چیلنج بظاہر ایک تکلیف کی چیز ہے ۔ مگر وہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise) ہے۔
میں نے کہا کہ اس مسئلہ کا حل وہی ہے جس کا مشورہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ اسی قسم کی صورت حال میں بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا : وَٱجۡعَلُواْ بُيُوتَكُمۡ قِبۡلَةٗ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَۗ (يونس:۸۷)۔ یعنی اپنے گھروں کو دینی مرکز بنا لو ، جو کچھ ملکی سطح پر حاصل نہیں ہے، اس کو اپنے گھر کی سطح پر حاصل کرو۔ میں نے کہا کہ اس خدا وندی تدبیر کا فائدہ آپ کو صرف اس وقت مل سکتا ہے جب کہ آپ اپنا زیادہ وقت اپنے گھر اور اپنے بچوں کو دیں۔ امریکہ کے مسلم والدین عام طور پر اپنے بچوں کو ضرور ی وقت نہیں دے پاتے ، اس لیے ان کے بچے یہاں کے کلچر میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کو اپنی آؤٹنگ میں کمی کرنا ہو گا ۔ اور اگر آپ دو شفٹ میں کام کرتے ہوں تو ایک شفٹ میں کام کرنا ہوگا تا کہ آپ اپنی اگلی نسلوں کو بچا سکیں۔
اس وقت امریکہ کی عام صورت حال یہ ہے کہ ماں باپ اپنا زیادہ وقت گھر کے باہر گزارتے ہیں ۔ وہ کام میں مصروف ہوتے ہیں یا تفریح میں۔ بچوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔ اس سلسلے میں جو اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی باپ اپنے بچوں کےلیے جو وقت دے پاتا ہے وہ ۲۴ گھنٹہ میں صرف سات منٹ ہوتا ہے۔ اور امریکی ماں جو وقت دیتی ہے وہ ۲۴ گھنٹے میں صرف تیس منٹ ۔بچے بڑے ہونے کے بعد خود بھی اپنا وقت باہر گزارنے لگتے ہیں اور چھوٹے بچے گھر میں ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں ، کیوں کہ ایک امریکی کے الفاظ میں ، ٹی وی ان کے لیے کبھی اتنا زیادہ مصروف نہیں ہوتا :
Because the T.V. is never too busy for them.
بچوں کی تربیت کا فطری طریقہ یہ ہے کہ گھر کے اندر اس کا نظام موجود ہو۔ لیکن گھر کے اندر چوں کہ یہاں اس کا نظام موجود نہیں، اس لیے تجارتی لوگ اس کے نام پر ادارے قائم کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ایک میگزین میں ایک اشتہار تھا۔ یہ یوٹا (Utah) کا ایک تربیتی ادارہ ہے۔ اس کا نام ہیر یٹج اسکول (The Heritage School) ہے۔ اس کا عنوان ہے ––––––– پریشان بچوں کی مدد کرو Help for troubled teens) ) اس اسکول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خاندانی زندگی کا ہنر (family living skills) سکھاتا ہے۔
مذاہب کی انسائیکلو پیڈیا آف ریلجین اینڈ ایتھکس، تقریباً ۶۰ سال پہلے تیار کی گئی تھی ۔ وہ اگر چہ کافی مستند ہے۔ مگر اب وہ قدیم ہو چکی تھی، نیز بہت باریک لیٹر میں ہونے کی وجہ سے اس کو پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ اب مذاہب پر ایک نئی اور ہر لحاظ سے بہتر انسائیکلو پیڈ یا تیار ہوگئی ہے :
The Encyclopadia of Religion, edited by Mircea Eliade Macmillan publishing company, New York, 1987, 16 volumes.
یہ انسائیکلو پیڈیا یہاں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مذاہب کے میدان میں تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے نہایت مفید ہے۔
۲۷ نومبر کو بعد دو پہر میں اپنی قیام گاہ (ویسٹ منسٹر کیلی فورنیا) سے ٹہلنے کے لیے باہر نکلا۔ قیام گاہ اس وقت خالی تھی ۔ کیوں کہ عورت اور مرد اپنے کام پر گئے ہوئے تھے اور بچے اسکول میں تھے۔ خالی سڑک سے تنہا گزرتے ہوئے میں ایک پارک (فارسٹ ایونیو )پہنچا۔ وسیع پارک میں کچھ بڑے اور کچھ بچے دکھائی دیے ۔ یہاں کوئی انسانی آواز سننے کے لیے موجودنہ تھی۔ دور کے کسی مکان سے کتا بھونکنے کی آواز آرہی تھی اور کبھی کبھی کوئی کار قریبی سڑک سے گزر جاتی تھی۔
پارک نہایت خوبصورت تھا۔ ہندستان کے پارکوں سے وہ اتنا ہی مختلف تھا جتنا خود امریکہ ہندستان سے۔ اس کو دیکھ کر مجھے وہ خوب صورت تر پارک یاد آیا جو پچھلے دن میں نے ٹی وی میں دیکھا تھا۔ صدر امریکہ مسٹر جارج بش یہاں کا خصوصی تیوہار تھینکس گونگ (Thanksgiving) اپنے فوجیوں کے ساتھ منانے کے لیے خلیج عرب گئے تھے، واپسی میں ان کا خصوصی جہاز واشنگٹن میں اترا۔ جہاز سے نکل کر وہ ایک نہایت خوب صورت پارک سے خراماں خر اماں چلتے ہوئے ایک شاندار مکان میں داخل ہوگئے۔
ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ موت کا فرشتہ اسی طرح ایک روز آدمی کے پاس آئے گا۔ اس کے ساتھ ایک سواری ہوگی۔ وہ آدمی کو سواری پر بٹھا کر دنیا سے آخرت کی طرف روانہ ہو گا۔ عالم آخرت میں یہ سواری یا تو ایک سرسبز پارک کے کنارے اترے گی۔ آدمی سواری سے نکلے گا اور خوشی خوشی اس پارک سے گزرتا ہوا اپنے جنتی مکان میں داخل ہو جائے گا ۔ یا پھر اس کی سواری ایک خشک بیابان میں اترے گی ، وہ سواری سے باہر آئے گا تو وہ پائے گا کہ وہاں اندھیروں اور خاردار وادیوں کے سوا کوئی اور چیز اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود نہیں۔
اس وقت آسمان مکمل طور پر صاف تھا۔ سورج کی سنہری روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ پارک کے چاروں طرف سر سبز درختوں سے ڈھکے ہوئے خوبصورت مکانات دلکش منظر پیش کر رہے تھے ۔ میں نے سوچا کہ یہ دنیا بے حقیقت ہونے کے باوجود اتنی زیادہ حسین ہے کہ خدا کی خاص توفیق ہی سے کوئی شخص اس کے مسحور کن فتنہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس وقت مجھے بے ساختہ فانی بدایونی کا یہ شعر یاد آگیا :
فریب جلوہ اور کتنا مکمل اے معاذ اللہ بڑی مشکل سے دل کو بزم عالم سے اٹھا پایا
اس کے بعد میں تقریباً روزانہ پارک میں جانے لگا۔ یہاں مختلف قسم کے سبق آموز تجر بے ہوئے ۔ ۲۸ نومبر کی سہ پہر کو میں ایک پارک میں کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ایک حصہ میں بچوں کے کھیل کا سامان لگا ہوا ہے۔ ایک سفید فام بچہ( تقریباً تین سال کا ) آیا اور ایک جھولے پر چڑھ گیا۔ یہ جھولا ایسا تھا جس کو ہلانے کے لیے کوئی دوسرا آدمی درکار تھا۔ بچہ نے مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ کہا۔ ابتداءً میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے کئی بار کہا تو میری سمجھ میں آیا کہ وہ کہہ رہا ہے –––– چچا، مجھے دهكا دو :
Uncle, push me.
میں اس کے قریب گیا اور اس کو جھولا جھلانے لگا۔ وہ بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد اس نے میرا نام پوچھا۔ اس نے کچھ اور کہا جو لہجہ کے فرق کی وجہ سے میری سمجھ میں نہ آسکا۔
پارک میں جس وقت یہ واقعہ پیش آیا ، میرے ہاتھ میں امریکہ کے ایک منتھلی میگزین سن سٹ (Sunset) کا شمارہ دسمبر ۱۹۹۰ تھا۔ اس کے ٹائٹل پر لکھا ہوا تھا ––––– مغربی طرز ِز ندگی کا میگزین :
The magazine of Western living
۱۹۰ صفحہ کے اس انگریزی میگزین کا بیشتر حصہ اشتہارات سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے چار صفحات (۵۴- ۵۷) بگڑے ہوئے بچوں کے اسکول ( Schools for troubled teens) کے بارے میں تھے۔ ان صفحات میں تقریباً چار درجن ایسے اسکولوں کے اشتہارات درج تھے۔ اس وقت امریکی خاندانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ والدین کے پاس اپنے بچوں کی تربیت اور نگہداشت کے لیے کوئی وقت نہیں۔ ان کا بیشتر وقت یا تو دفتروں میں گزرتا ہے یا اگر چھٹی ہو تو " آؤٹنگ" میں۔ چنانچہ بچے خود رو پودے کی طرح اگ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچوں کی پوری نسل خراب ہو کر رہ گئی ہے ۔ یہ اسکول ان بچوں کی پروفیشنل رہنمائی (professional guidance) کے لیے بنائے گئے ہیں ۔ ایک اشتہار کا مضمون یہاں نقل کیا جاتا ہے :
We Rescue Teenagers: The most effective option for parents who need help with teens who are - out of control, irresponsible, depressed, during and alcohol dependent, failing school, irresponsible, depressed, drug and alcohol dependent, failing school, running with the wrong friends, unmotivated, undisciplined and who lack real self-esteem.
اس قسم کے اشتہارات پڑھتے ہوئے مجھے مذکورہ سفید فام امریکی بچے کے الفاظ Uncle, push me یاد آئے۔ مجھے ایسا محسوس ہو اگو یا بچہ کے ان الفاظ میں نئی امریکی کی روح پکار رہی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ میں دلدل میں پھنس گیا ہوں، مجھے دھکا دےکر یہاں سے نکالو ۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے اس سنگین مسئلہ کا حل پروفیشنل اسکول نہیں ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ امریکہ کے معاشرہ کو دوبارہ یہاں لایا جائے کہ اس کا طرز فکر بدلے ۔ والدین دوبارہ بچوں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ۔ بچوں کی تربیت کا حقیقی کام صرف گھر کے اندر ہو سکتا ہے ۔ وہ پروفیشنل اسکولوں میں کبھی انجام نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ارادہ ہے کہ ان شاء اللہ خاتون اسلام جلد ہی انگریزی میں شائع کی جائے گی ۔
ایک روز میں پارک میں پہنچا تومیں نے دیکھا کہ ایک سفید فام امریکی بینچ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے پاس جا کر میں نے کہا کہ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔ اس نے خوش دلی کے ساتھ میرے لیے جگہ خالی کر دی۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔ ابتدائی رسمی باتوں کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں ۔ شاید یہ کوئی مخالف امریکہ نظریہ ہے :
I have little knowledge of Islam. Perhaps it is a form of anti-Americanism.
میں نے کہا کہ اسلام اینٹی امریکی نظریہ نہیں ، اسلام تو پر و امریکی نظریہ ہے ۔ میری زبان سے یہ جملہ سن کر وہ چونک پڑا۔ اس کے دریافت کرنے پر میں نے مزید بتا یا کہ اسلام کی بنیاد کسی قوم کی دشمنی یا کسی حکومت کی مخالفت پر نہیں۔ اسلام تو یہ ہے کہ ہر آدمی کو اس کے خالق سے متعارف کرے۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ ہر آدمی کو اپنی زندگی میں اس خدائی طریقہ کو اختیار کرنے کی تلقین کرے جو اس کو ابدی جنت میں لے جانے والا ہے ۔ اسلام آپ کا دشمن نہیں ، اسلام آپ کا دوست اور خیر خواہ ہے۔ اگر آپ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں تو آپ پائیں گے کہ اسلام اینٹی امریکن ازم کا نام نہیں ، اسلام پر و امریکن ازم کا نام ہے۔ کیونکہ وہ آپ کو جنت میں لے جانا چاہتا ہے۔ (باقی)