ایک سنت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اہل اسلام کے لیے ایک معیاری نمونہ ہے۔ اس سنت کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے، خواہ وہ مسواک جیسا انفرادی معاملہ ہو یا جہاد جیسا اجتماعی معاملہ ۔ خواہ وہ آج کا مسئلہ ہو یا ہزاروں برس بعد کا کوئی مسئلہ۔
سنت کی دو بڑی قسمیں ہیں ۔ ایک سنت وہ ہے جو اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے مطلوب ہوتی ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي (صحیح بخاری ،حدیث نمبر ۵۶۶۲) اس حدیث کا تعلق اصلاً نماز کی ظاہری صورت (form) سے ہے ۔ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور خود بھی اسی طرح نماز ادا کی۔ اسی طرح اس کے بعد صحابہ کو دیکھ کر تابعین نے اور تابعین کو دیکھ کر تبعِ تابعین نے نماز پڑھی۔ یہ سلسلہ نسل در نسل امت میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ آج ہم جو نماز پڑھتے ہیں ، وہ بھی بالواسطہ طور پر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی نقل ہوتی ہے۔
اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اونٹ پر بیٹھ کر حج کے مراسم ادا کیے تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اے لوگو ، مجھ کو حج کرتے ہوئے دیکھو اور اسی کے مطابق تم حج کے مناسک ادا کرو۔خُذُوا عني مَنَاسِككُم (السنن الكبرى للبيهقي،حدیث نمبر۹۴۰۰)
یہ سنت کی پہلی قسم ہے۔ اس میں یہ مطلوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فعل کو جس شکل میں کیا ہے ، عین اسی شکل میں اس کو ادا کیا جائے ۔ اس کو سنتِ ظاہری کہا جاسکتا ہے۔
دوسری سنت سنتِ معنوی ہے ۔ یعنی وہ سنت جو اپنی روح (Spirit) کے اعتبار سے مطلوب ہوتی ہے۔ اس دوسری سنت میں ظاہری شکل اضافی ہے، اور اس کی معنوی روح حقیقی اوراصل مطلوب کی حیثیت رکھتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن ۲۳ سال کے عرصہ میں اترا۔ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ اتر تا تو اسی وقت آپ کسی کا تب کو بلا کر اس کو لکھواتے ۔ آپ کی خدمت میں ہر وقت کوئی نہ کوئی کاتب موجود رہتا۔ اس طرح کا تبانِ وحی کی تعداد ۴۰ سے زیادہ شمار کی گئی ہے۔ آپ کو اس کا اتنا زیادہ اہتمام تھا کہ ہجرت کے نازک سفر میں بھی قلم اور کا غذ آپ کے ہمراہ تھا اور ایک کاتبِ وحی (ابو بکر صدیق) آپ کے ساتھ چل رہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پور اقرآن اس زمانہ کے اوراق اور کاغذات پر لکھا جا چکا تھا۔ بہت سے صحابہ (مثلا ً زید بن ثابت انصاری) پورے قرآن کے حافظ تھے۔ آخر عمر میں آپ نے ایک بار پورے قرآن کو سلسلہ وار پڑھا اور صحابہ کی ایک جماعت نے اس کو براہ راست آپ سے سنا۔ اس کو حدیث کی کتابوں میں الْعَرْضَةُ الْأَخِيرَةُ (المستدرك للحاكم،۲۹۰۴)کہا گیا ہے۔
اس طرح کے مختلف اہتمام کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو ایک جلد کی صورت میں جمع نہیں فرمایا۔ آپ کی وفات کے وقت قرآن یا تو لوگوں کے سینہ میں تھا ، یا متفرق ٹکڑوں اور اوراق پر لکھا ہو اتھا۔ وہ ایک واحد کتاب کی صورت میں مرتب نہیں ہوا تھا جیسا کہ آج وہ ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینی طور پر اس سے باخبر تھے کہ اس صورت حال کو بعد کے لوگ کتاب اللہ کے بارے میں شوشے بنائیں گے ۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں مستشرقین نے اس واقعہ کو لے کر طرح طرح کے شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر مستشرقین کی مرتب کردہ دائرۃ المعارف الاسلامیہ (انسائیکلو پیڈیا آف اسلام) کی پانچویں جلد میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے اور اس کی مختلف تو جیہیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک توجیہہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا خیال تھا کہ قیامت کا وقت قریب آگیا ہے اور جلد ہی یہ دنیا ختم ہو جائے گی، اس لیے قرآن کو ایک جلد میں مرتب کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوا : إن الرسول كان يتوقع قرب قيام الساعة ونهاية العالم في زمن قريب - فكان لاداعى إلى جمع القرآن (الوعی الاسلامی ، کویت ،رمضان ۱۴۱۰ھ)
ان امکانی خطرات کے باوجود رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا فعل کہ آپ نے قرآن کو ایک صحیفہ کی صورت میں مجلد نہیں کر ایا ، یہ کوئی بھول یا غلطی کی بات نہیں ہے، یہ خود آپ کی ایک سنت ہے۔ ایسا آپ نے قصد و ارادہ کے تحت کیا۔ کیوں کہ اس سے ایک اہم دینی فائدہ وابستہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دین کو کامل کرنا تھا، اس لیے نا ممکن تھا کہ آپ کسی دینی کام کو غیر کامل حالت میں چھوڑدیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر ایسا کرتے کہ اپنی زندگی ہی میں قرآن کو ایک صحیفہ کی صورت میں مرتب کرکے اس کی بہت سی جلدیں بنواتے اور اس کو تمام ملکوں کی مسجدوں میں رکھوا دیتے تو آپ کے بعد قرآن کا تقریباً وہی انجام ہوتا جو آج امت کے اندر نظرآرہا ہے۔ لوگ بنے بنائے قرآن کو لے کر بس اس کی تلاوت کرنے میں لگ جاتے ۔ قرآن کے سلسلے میں انھیں اس کے سوا کوئی اور کام نظر نہ آتا جس میں وہ اپنے آپ کو مشغول کریں۔ قرآن کی تدوین کو ناتمام چھوڑ کر آپ نے اپنے بعد امت کو ایک بہت بڑی مشغولیت عطا کردی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے زمانے میں ۱۲ھ میں یمامہ ( سعودی عربی)میں ایک جنگ ہوئی۔ اس میں ۷۰ایسے مسلمان شہید ہوگئے جو پورے قرآن کے حافظ تھے۔ اس سے حضرت عمر فاروق کو اندیشہ ہوا کہ قرآن کے حافظ اگر اسی طرح ختم ہوتے رہے تو قرآن کا علم چلا جائے گا۔ انھوں نے حضرت ابوبکر سے کہہ کر قرآن کی تدوین کرائی۔
تاہم یہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔ اولاً خلیفۂ اول کو اس میں ترددہوا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ اس کو ہم کیسے کریں۔ کافی بحث کے بعد وہ راضی ہوئے۔ اب ایک مستقل سرگرمی جاری ہوگئی۔ مثلاً حضرت عمر اور حضرت زید روزانہ مسجد کے دروازہ پر بیٹھ جاتے اور لوگوں سے کہتے کہ جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ لکھا ہوا موجود ہو، وہ یہاں لاکر مسجد میں جمع کرے۔
حضرت زیدبن ثابت انصاری اپنی مختلف صلاحیتوں کی وجہ سے اس کے لیے موزوں سمجھے گئے کہ وہ اس عظیم کام کے ذمہ دارِ اعلیٰ مقرر کیے جائیں۔ انھوں نے تمام جمع شدہ مکتوب اجزاء کو پڑھا۔ ان کو حافظہ کی مدد سے جانچا۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار کسی کتاب کے لیے (double checking)(دہرا جانچ) کا نظام قائم کیاگیا۔ یعنی کتابت کو حافظہ سے جانچا گیا اور حافظہ کو کتابت سے ۔ تاہم حضرت زید بن ثابت (م ۴۵ھ) کے لیے یہ اتنا سخت کام تھا کہ انھوں نے کہا:
فَوَاللهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ۔( صحیح بخاری ،حدیث نمبر۴۹۸۶)
خدا کی قسم ، اگر وہ مجھ پر یہ ذمہ داری ڈالتے کہ پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو میں اپنی جگہ سے ہٹادوں تو وہ میرے لیے اس حکم سے زیادہ سخت نہ ہوتا جو ابوبکر وعمر نے قرآن کو جمع کرنے کے لیے مجھے دیا۔
ایک سرگرم اور پرازواقعات جدوجہد کے بعد جب قرآن ایک کتاب کی صورت میں مدون ہوگیا تو اب یہ سوال تھا کہ کثیر تعداد میں جو لکھے ہوئے اجزاء جمع ہوئے ہیں، ان کو کیا کیا جائے۔ اب دوبارہ بحث شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ متفقہ فیصلے کے تحت ان سب کو جلاکر ختم کردیا گیا۔
یہ لمبا طرح طرح کے واقعات سے بھرا ہوا کام جس کی تفصیل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کو ایک نئی زبردست مشغولیت دے دی۔ اس مشغولیت کے دوران ان کے اوپر دین کے بہت سے نئے نئے پہلو واضح ہوئے۔ حتی کہ انھوں نے قرآن کو از سر نو دریافت(rediscover)کیا۔ انھوں نے قرآن کے ساتھ از سرنواپنے زندہ تعلق کو استوار کیا۔ قرآن ان کے لیے محض ایک تقلیدی کتاب نہ رہا، بلکہ ایک ایسی کتاب بن گیا جس کو انھوں نے گویا اپنی تلاش اور محنت کے دوران دو بارہ نئے شعور کے ساتھ دریافت کیا تھا۔
یہ سنت جس کو ہم نے سمجھنے کی خاطر معنوی سنت کا نام دیا ہے، وہ بھی رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی بہت سی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ جس طرح آپ کی دوسری سنتیں ہمیشہ کے لیے مطلوب ہیں، اسی طرح یہ معنوی سنت بھی ہمیشہ کے لیے مطلوب ہے۔ مزید یہ کہ وہ بے حد اہم سنت ہے، کیوں کہ اسی کے ذریعہ سے امت کا احیاء ہوتا ہے۔ وہ امت کے افراد کو مسلسل طورپر زندہ اور سرگرم عمل رکھنے کا سب سے زیادہ طاقت ور ذریعہ ہے۔
اس سلسلے میں ایک مثال لیجیے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے اس لیے اتاری ہے کہ اس کے ذریعہ سے تمام دنیا والوں کو آگاہ کیا جائے(الفرقان:1) جیسا کہ معلوم ہے،قرآن عربی زبان میں ہے، جب کہ دنیا کی قوموں میں ہزاروں مختلف زبانیں رائج ہیں۔ ایسی حالت میں تمام قومیں کس طرح قرآن سے آگاہی لے سکتی ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہوتا کہ ہر قوم براہ راست اسی منزّل قرآن سے ہدایت حاصل کرے تو وہ قرآن کو کسی بین اقوامی زبان (Lingua Franca)میں اتار تا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ مومنینِ قرآن اس کتاب کو تمام قوموں کی زبانوں میں ترجمہ کریں اور اس طرح اس کو تمام لوگوں تک ان کی قابلِ فہم صورت میں پہنچائیں۔
یہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معنوی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، اس لحاظ سے دیکھیے تو موجودہ زمانےمیں ضرورت تھی کہ اس سنت نبوی پر عمل کیا جاتا۔ مثلاً اس کی ایک صورت یہ تھی کہ موجودہ زمانے میں پریس کی ایجاد اور مواصلات کے جدید ذرائع کے ظہور نے اس کا امکان پیدا کر دیا تھا کہ قرآن کو بآسانی تمام قوموں کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ اب اگر ہمارے رہنماؤں نے اس سنت کو زندہ کیا ہوتا۔ اور وہ قوم کو ابھارتے کہ قرآن کا ہر زبان میں مستند تر جمہ کرو۔ اس کو چھپواؤ۔ اور اس کو ساری دنیا میں پہنچاؤ تو یہ اتنا بڑا کام ہوتا کہ امت پوری کی پوری اس کام میں مشغول ہو جاتی۔ اس رخ پر عمل شروع کرنے کے بعد اس کے بے شمار پہلو نکلتے۔ ہر آدمی اس میں اپنے لیے کرنے کاکام پالیتا۔
اس طرح گویا مسلمان قرآن کو موجودہ زمانے کے لحاظ سے از سرنو دریافت (Rediscover) کرتے۔ قرآن دوبارہ ان کے لیے ایک زندہ کتاب بن جاتا جو ان کی پوری زندگی میں دینی بھونچال پیدا کر دیتا۔ مگر بر وقت اس قسم کی رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے پوری ملت سیاست کی چٹان پر بے فائدہ طور پر اپنا سر پٹک رہی ہے اور نتیجۃ ً دین سے بھی محروم ہے اور دنیا سے بھی۔