عید الاضحیٰ
اسلامی شریعت میں سال کے اندر دو تیو ہار مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک عید الفطر ۔ دوسرے عید الاضحی۔ اصل اسلامی تیوہار یہی دو ہیں۔ ان کے علاوہ اور جو تیوہار مسلمانوں میں رائج ہیں اور جن کو وہ مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں ، وہ سب مسلمانوں کے اپنے قومی رواج ہیں ۔ ان کا اسلام کی اصل تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔
عید الفطر کا تیو بار روزہ کا مہینہ ختم ہونے کے فور اً بعد شوال کی پہلی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے افطار کی عید۔ یعنی مہینہ بھر کا روزہ رکھنے کے بعد کھانے پینے کی عید ۔ اس دن روزہ رکھنا حرام ہے ۔ مسلمان اس دن شکرانہ کی دو رکعت نماز پڑھتے ہیں ۔ آپس میں مل کر خوشی مناتے ہیں۔ کھانے پینے اور ملنے جلنے کے پروگرام کرتے ہیں۔
عید الاضحی کا مطلب ہے قربانی کی عید ۔ عوام میں اس دوسری عید کو بقر عید کہا جاتا ہے ۔ مگر یہ نام غلط ہے۔ اس تیو ہار کا نام بقر عید نہیں ہے ۔ اس کا صحیح اسلامی نام عید اضحی ہے ۔ اس کا مطلب ہے قربانی کی عید ۔ یہ دوسری عید قمری سال کے آخری مہینہ میں ذوالحجہ کی دس تاریخ کومنائی جاتی ہے۔ اس دن مسلمان دور کعت اجتماعی نماز پڑھتے ہیں۔ قربانی کرتے ہیں اور کھاتے اور کھلاتےہیں۔ اور اللہ کی بڑائی کا چرچا کرتے ہیں۔
اسلامی اصول کے مطابق ، ان دونوں تیوہاروں میں سے کوئی بھی تیو ہار کھیل تماشے یا قومی ہنگاموں کے لیے نہیں ہے ۔ بلکہ دونوں تیو ہار انتہائی سنجیدہ عمل کی یا دد ہانی کے لیے ہیں۔ رمضان کا مہینہ صبر اور بر داشت کی تربیت کا مہینہ ہے۔ اس پر مشقت تربیتی کورس سے گزرنے کے بعد عید الفطر آتی ہے جو گویا اس بات کی خوشی کے لیے ہے کہ مسلمانوں نے صبر و برداشت کی تربیت کا مہینہ کامیابی کے ساتھ گزار لیا ۔ عید الفطر کا دن صا برانہ زندگی گزارنے کےعہد کا دن ہے نہ کہ بے صبری کے مظاہرے کرنے کا دن ۔
عید الاضحی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ عید الاضحی در اصل قربانی کا سبق ہے ۔ یہ عید مسلمانوں کو یہ بتاتی ہے کہ تمہیں زندگی کے امتحان میں اپنی ذات کی قربانی کا ثبوت دینا ہوگا۔ قربانی کے بغیر تم اپنی زندگی کی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے۔ قربانی کے بغیر تم اللہ کے مطلوب بندے نہیں بن سکتے۔
عید اضحی یا عید قرباں حضرت ابراہیم کی زندگی کی یادگار ہے ۔ وہ آپ کے ایک تاریخی عمل کی علامتی یاددہانی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عید اضحی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے حضرت ابراہیم کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ حضرت ابراہیم نے وہ عمل آخر ی مثالی صورت میں کیا جس کو اپنی زندگی میں دہرانے کا عہد عید اضحی کے دن ہر سال کیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ایک پیغمبر تھے۔ وہ چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لوگوں کو خدا پرستی اور انسانیت کی طرف پکارا۔ مگر آپ کے بھتیجے کے سوا کسی نے آپ کی بات نہ مانی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تمدن کی مصنوعی زندگی نے لوگوں سے فطری انسانی اوصاف چھین لیے تھے۔ لوگ سطحی باتوں میں مشغول ہو گئے تھے اور گہری باتوں سے انھیں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی تھی۔
اس وقت اللہ کی ہدایت پر حضرت ابراہیم نے ایک نئی نسل تیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں لے جا کر بسا دیا۔ وہاں اس وقت انسانی آبادی نہ تھی ۔ ہر طرف صرف فطرت کا سادہ ماحول تھا۔ پہاڑ ، صحرا ، کھلے میدان ، سورج ، چاند ، آسمان ، رات اور دن بس اسی قسم کے فطری مناظر تھے جن کے درمیان اسماعیل کو اور ان کی اولاد کو رہنا پڑا۔
اس صحرائی زندگی میں رہنا اپنے آپ کو ذبح کرنے کے ہم معنی تھا۔ کیوں کہ اس وقت وہاں ہر طرف موت کا منظر تھا ۔ وہاں اس وقت زندگی کا کوئی سامان موجود نہ تھا۔ حضرت ابراہیم نے بے آب و گیاہ صحرا میں اس طرح بسا کر اپنے بیٹے کو ذبح کیا۔ وہاں کے مشکل ترین ماحول میں دو ہزار سال تک توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ ایک نئی نسل بن کر تیار ہوگئی جس کو تاریخ میں بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ یہ نسل تمدن سے کٹ کر خالص فطرت کے ماحول میں تیار ہوئی تھی۔
بنو اسماعیل اس زمانہ میں بالکل نئے قسم کے انسان تھے ۔ مورخین کے بیان کے مطابق، ان میں سے ہر شخص گویا ہیرو تھا۔ ان کے اندر تمام فطری انسانی اوصاف پوری طرح زندہ تھے۔ وہ سچ بولتے تھے ، وہ جھوٹ بولنا نہیں جانتے تھے ۔ وہ وعدہ پورا کرتے تھے ، وعدہ خلافی ان کے لیے ناقابل تصور چیز تھی۔ وہ فیاض تھے ، بخیلی کو وہ سخت نا پسند کرتے تھے ۔ وہ کمزور کی مدد کرتے تھے ، کمزور کو ستانا یا لوٹنا ان کے نزدیک بہت بڑا جرم تھا ۔ وہ جو کچھ کہتے وہی کرتے ، اور وہی کرتے جو انھوں نے اپنی زبان سے کہا ہے۔
یہی وہ اعلیٰ انسانی گروہ تھا جس نے بعد کو پیغمبر اسلام کا ساتھ دیا۔ اسی سے وہ انسانی ٹیم بنی جس نے دنیا میں پہلی بار آزادی اور مساوات کا انقلاب برپا کر دیا ۔ سوامی ویویکا نند نے اپنے لیٹرز میں لکھا ہے انسانی برابری (equality) کا نظام اگر کبھی قابل لحاظ درجہ میں کسی مذ ہب نے قائم کیا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے :
My experience is that if ever any religion approached to this equality, it is Islam and Islam alone. (p.379).
اسلام نے انسانی مساوات کا جو نظام اپنے دور اول میں قائم کیا ، وہ اس نے اسی مذکورہ نسل کے ذریعہ قائم کیا جو عرب کے صحرا میں عظیم الشان قربانی کے ذریعہ تیار کی گئی تھی۔ اس کے اندر فطری انسانی اوصاف زندہ تھے۔ اسی لیے وہ اس قابل بنی کہ وہ اعلیٰ مقصد کو اپنائے اور قربانی دے کر اس کو عملاًقائم کرے ۔ یہ تاریخی کا رنامہ ایک عظیم قربانی کا کرشمہ تھا۔
عید اضحی کے موقع پر جانور کی جو قربانی کی جاتی ہے ، وہ مذکورہ ابراہیمی واقعہ کی یادگار ہے ۔ حضرت ابراہیم نے ایک نئی جاند ارنسل تیار کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو قربان کیا۔ عید اضحی کا دن اسی قربانی کی یا دلاتا ہے۔ عید اضحی کا دن بتاتا ہے کہ زندگی میں کوئی بڑا کام قربانی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایک نسل تیار کرنا ، ایک سماج بنانا ، ایک ملک کو آگے بڑھانا ، ہر کام اس وقت انجام پاتا ہے جب کہ کچھ لوگ اُس کو اس طرح اپنا مقصد بنا ئیں کہ اس کے لیے وہ ہر قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں۔
عید اضحی کے موقع پر جانور کا ذبح کرنا اسی ذاتی قربانی کا فدیہ ہے۔ اصل قربانی تو اپنی ذات کی ہے ۔ عید اضحی کے دن جو جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ ذاتی قربانی کی علامت ہے۔ وہ ذاتی قربانی کا عملی یا علامتی عہد ہے۔ چنانچہ قربانی کرنے والا اگرچہ بظا ہر جانور ذبح کر رہا ہوتا ہے مگر اس وقت وہ اپنی زبان سے جو دعا پڑھتا ہے اس کے الفاظ یہ ہوتے ہیں :
"بے شک میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب کا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔ خدا یا تجھی نے دیا ہے اور تجھی کو میں لوٹاتا ہوں "۔
جانور کی قربانی در اصل ذاتی قربانی کا سبق ہے ۔ یہ ذاتی قربانی حضرت ابراہیم نے ایک خاص صورت میں دی ۔ حالات کے اعتبار سے وہ مختلف صورتوں میں ہر زمانے میں مطلوب ہوتی ہے کبھی ایک لیڈر کو قوم کی ترقی کی خاطر ذاتی مقبولیت کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ کبھی کچھ افراد کو سماج کی مجموعی بہتری کے لیے ذاتی تقاضوں کو دبا نا پڑتا ہے۔ کبھی کسی قوم کی حال کی نسل کو قربان ہونا پڑتا ہے تاکہ اس کی مستقبل کی نسل کامیابی کی منزل تک پہنچ سکے۔ کبھی ایک گروہ کو اپنی خوشیوں سے محروم ہونا پڑتا ہےتاکہ وسیع تر انسانیت کو خوشیوں کی نعمت مل سکے۔
عید اضحی کا پیغام یہ ہے کہ –––––– قربانی کے لیے تیار رہو ۔ جب کبھی کسی بڑے مقصد کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کا موقع آئے تو فورا ًاپنے آپ کو اس کے لیے قربان کر دو جس طرح آج تم نے ایک جانور کو قربان کیا ہے۔ جانور کی قربانی حقیقۃ ً ذاتی قربانی کا ایک مقدس عہد ہے ۔ اور اللہ کے یہاں قربانی دینے والا وہ ہے جو اپنے اس عہد کو اپنی زندگی میں پورا کر دکھائے۔
عید اضحی در اصل حج کی عظیم عبادت کا ایک جزءہے۔ حج کی صورت میں ہر سال جو مراسم عرب میں ادا کیے جاتے ہیں وہ سب کے سب حضرت ابراہیم کی تاریخ کا علامتی اعادہ ہیں ۔ حضرت ابراہیم کو ایک خدا پرستانہ انقلاب لانا تھا۔ اس کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دیا۔ اس عمل کے دوران ان پر یا ان کے اہلِ خانہ پر جو احوال گزرے، انھیں کو حاجی دہراتا ہے۔ حج در اصل حضرت ابراہیم کے حقیقی واقعات کا علامتی اعادہ ہے۔
اسی حج کے عمل کا ایک جز ءنماز اور قربانی ہے جس کو انھیں دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان مناتے ہیں۔ معروف حج بڑا حج ہے اور عید اضحی گویا چھوٹا حج۔