اللہ کی ضمانت
دعوت الی اللہ کا کام جب بھی کسی پیغمبر نے کیا، اس کی قوم نے اس کو ستایا ۔ یہی معاملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آپ نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی تو وہ آپ کے دشمن ہو گئے۔ مکہ میں بھی آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ستایا جاتا رہا اور مدینہ میں بھی مزید شدت کے ساتھ آپ کی مخالفت جاری رہی۔ اس سلسلہ میں اللہ کی طرف سے آپ کو واضح ضمانت دی گئی۔ایک آیت یہ ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهُۥۚ وَٱللَّهُ يَعۡصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهۡدِي ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡكَٰفِرِينَ (المائدة: 67)اے پیغمبر، جو کچھ تمہارے اوپر تمہارے رب کی طرف سے اترا ہے اس کو پہنچا دو۔ اور اگر تم نے ایسانہ کیا تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا۔ اللہ یقیناً انکار کرنے والوں کو راہ نہیں دیتا۔
دعوت کا کام خالص خدائی کام ہے ۔ یہ اللہ کے منصوبہ کی تکمیل کے طور پر انجام دیا جاتا ہے (النساء: ۱۶۵) اس لیے یہ بالکل فطری ہے کہ اس معاملہ میں داعی کو اللہ کی مدد حاصل ہو ۔ اس مشکل کام میں اللہ کی مدد کا نہ آنا تعجب خیز ہے نہ کہ اللہ کی مدد کا آنا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس دعوتی کام کی ذمہ داری اہل اسلام پر ہے۔ آپ کے بعد آپ کی امت کو وہ کام انجام دینا ہے جو آپ نے اپنی زندگی میں انجام دیا تھا۔ (الحج: ۷۸) ذمہ داری کی اس توسیع کا قدرتی تقاضا تھا کہ حق میں بھی توسیع کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اعلان فرمایا کہ وہ تمام لوگ جو اس معاملہ میں پیغمبر اسلام کی پیروی کریں گے وہ اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں اللہ کی حفاظت میں رہیں گے :
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ حَسۡبُكَ ٱللَّهُ وَمَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ (الأنفال: 64)اے نبی ، اللہ تمہارے لیے کافی ہے اور مومنین کے لیے جنھوں نے تمہارا ساتھ دیا ہے۔
اس آیت کے دو مطلب بتائے گئے ہیں۔ دوسرا مطلب یہی ہے کہ اللہ تمہارے لیے کافی ہے اور ان کے لیے جنھوں نے تمہارا اتباع کیا ۔حَسْبُك وَحَسْبُ مَنْ اتَّبَعَك اللَّهُ( التفسیر المظہري ۱۱۰/۴)
مومنین کے لیے اس نصرت کا ذکر قرآن میں مختلف مقامات پر مختلف انداز سے کیا گیا ہے ۔