اسلامی انقلاب کا اثر
مغل شہنشاہ جہانگیر(۱۶۲۷- ۱۵۶۹) کا واقعہ ہے جس کو مولانا شبلی نعمانی نے نہایت موثر انداز میں نظم کیا ہے۔ ان کی یہ تاریخی نظم "عدل جہانگیری" کے عنوان سے ان کے مجموعۂ کلام میں شامل ہے۔ اس واقعہ کے مطابق جہانگیر کی محبوب ملکہ نور جہاں نے ایک شخص کو بلا سبب طپنچہ مار کر قتل کر دیا۔ یہ معاملہ شرعی مفتی کے سامنے پیش ہوا۔ علامہ شبلی کے الفاظ میں :
مفتیِ شرع نے بے خوف و خطر صاف کہا شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن
مفتی کے اس فتوی کے بعد نور جہاں ، جہانگیر اور تمام درباری اپنے کو بے دست و پا محسوس کرنے لگے ۔ بظاہر اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ نور جہاں کو اس جرم کی سزا دی جائے اور مقتول کے بدلے اس کو قتل کر دیا جائے۔ آخر کار مقتول کے ورثاء دیت لینے پر راضی ہو گئے اور اس طرح نور جہاں کی جان بچ گئی۔ کیوں کہ :
خوں بہا بھی تو شریعت میں ہے اک امرحسن
بعد کے زمانہ میں جب کہ اسلام کی تاریخ میں بادشاہوں کا دور شروع ہو گیا ، اس قسم کے واقعات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے سلطانوں کے دربار میں وقت کے علماء ان کی مرضی کے خلاف اسلام کے مسائل بیان کرتے تھے اور کسی سلطان کو جرأت نہیں ہوتی تھی کہ اس کے مقا بلہ میں انکار اور سرکشی کا مظاہرہ کر سکے۔
اس کی وجہ اسلامی انقلاب کی شدت ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ تاریخ میں جو انقلاب آیا وہ اتنا گہرا اور اتنا شدید تھا کہ ظاہری سطح پر تبدیلیوں کے باوجود مسلم معاشرہ سے کبھی اس کی چھاپ ختم نہ ہو سکی۔ ظالم سلاطین کو بھی ہمت نہ ہوتی تھی کہ کھلے طور پر وہ اسلام اور قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔
تاہم ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ حکمرانوں کے اندر اس مزاج کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے کلمۂ حق کہا جائے مگر ان کے اقتدار سے ٹکر اؤ نہ کیا جائے۔ کلمہ حق کی حد پر رہنے سے یہ روایت باقی رہتی ہے اور سیاسی اکھیڑ پچھاڑ کرنے سے یہ روایتی حد ٹوٹ جاتی ہے۔