غلط فہمی
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتِ: افْتَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ. فَتَحَسَّسْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ - أَوْ سَاجِدٌ - يَقُولُ: سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ. فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، إِنِّي لَفِي شَأْنٍ وَإِنَّكَ لَفِي آخَرَ (مسند احمد، ٢٥١٧٨صحیح مسلم، ۴۸۵،سنن النسائي،٣٩٦١)
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات کو میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگھرکے اندر نہیں پایا۔ انھوں نے گمان کیا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے پاس چلے گئے ہیں۔ انھوں نےآپ کو تلاش کیا تو انھوں نے پایا کہ آپ مسجدمیں رکوع (یا سجدہ )کی حالت میں ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ ، تو پاک ہے اور ساری تعریف تیرےہی لیے ہے ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے باپ اور ماں آپ پر قربان ہوں ، میں کسی اور حال میں ہوں اور آپ کسی دوسرے حال میں ہیں ۔
حضرت عائشہ نے آپ کو نہ پاکر گمان کیا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے گھر گئے ہیں ، حالاں کہ آپ خدا کے گھرگئے تھے۔ انھوں نے سمجھا کہ آپ کو کسی بیوی کی یاد آگئی ، حالاں کہ آپ کو خدائے ذوالجلال کی یاد آئی تھی۔ اسی طرح انسان ظاہر حالات کے اعتبار سے دوسرے شخص کے بارے میں ایک گمان کر لیتا ہے ۔ ابتدائی معلومات کےمطابق وہ اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے۔ مگر تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خیال محض ذاتی گمان کی بنیاد پرتھا، حقیقتِ واقعہ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا ۔
غلط فہمی ایک ایسی چیز ہے جس میں صحابی کے درجہ کا ایک انسان بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔ پھر عام انسان کے لیے تو اس کا امکان اور بھی زیادہ ہے ۔ اس لیے ہر انسان پر یہ لازم ہے کہ اگر کسی کے بارے میں اس کو غلط فہمی ہو جائے تو وہ اس کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بغیر ہرگز اپنی رائے پر اعتماد نہ کرے ۔
تحقیق نہ کرنے والا بلاشبہ گنہ گار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسے آدمی کا کوئی عذر ہرگز سنا نہ جائے گا۔ وہ اپنے اس جرم میں پکڑا جائے گا کہ جب تم کو معاملہ کا پورا علم حاصل نہ تھا تو تم نے کسی بندۂ خدا کے بارے میں ایک برا خیال کیسے قائم کر لیا ۔