ہدایت کا قانون
صحیح البخاری( کتاب التفسیر )میں سورہ القصص کے تحت یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے ۔ آپ نے دیکھا کہ ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ وہاں موجود ہیں۔ آپ نے ابو طالب سے کہا کہ اے چچا، لاالہ الا للہ کہہ دیجیے ، تاکہ اس کلمہ کی بنا پر میں اللہ کے یہاں آپ کے لیے حجت کر سکوں ۔
ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے ابو طالب سے کہا، کیا تم عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ابو طالب کے سامنے اپنی بات کہتے رہے اور وہ دونوں بار بار اپنی بات دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ آخر میں ابو طالب نے کہا کہ عبد المطلب کے دین پر ۔ اور انھوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کیا ۔حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ: هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ(صحيح البخاري،حدیث نمبر۱۲۹۴) روایت کے مطابق ، اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں آیت اتاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ تم جس کو چاہو اس کو ہدایت نہیں دے سکتے ۔ بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت دیتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں (القصص: ۵۶)
اس سے وہ قانون معلوم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے مقرر کیا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ دعوت خواہ کتنے ہی زیادہ طاقت ور دلیلوں کے ساتھ بیان کر دی جائے، بہر حال شبہ کا ایک عنصر (element of doubt) پھر بھی اس میں موجود رہے گا۔ دلیل کی کوئی بھی مقدار شبہ کے اس عنصر کوختم نہیں کر سکتی حتی کہ پیغمبر کی شخصیت اور اس کے برتر دلائل بھی ایسا نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی دعوت سے شبہ کے اس عنصر کا خاتمہ کر دیں۔
شبہ کے اس پر دہ کو پھاڑنا مدعو کا کام ہے ، وہ داعی کا کام نہیں ۔ یہ اللہ کی سنت ہے، اور اللہ کی سنت کبھی بدلتی نہیں۔ یہ ہر حال میں انسان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ شبہ کے اس پردہ کو پھاڑے تاکہ وہ اس حقیقت کو بے نقاب دیکھ سکے۔ شبہ کا پردہ پھاڑنے کے اس امتحان میں جو شخص پورا اترے، وہ اللہ کے قانون کے مطابق ہدایت کو پالے گا۔ اور جو شخص شبہ کے اس پر دہ کو پھاڑنے میں ناکام رہے، وہ ہدایت کو پانے میں بھی ناکام رہے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے ذریعہ ابو طالب کے سامنے دعوت پوری طرح آچکی تھی۔ مگر شبہ کا ایک عنصر پھر بھی ان کے لیے باقی تھا۔ وہ یہ کہ کیا یہ میرا بھتیجا اور عبد اللہ کا بیٹا حق پر ہے اور سارے اکا برِ قوم ،بشمول عبد المطلب غلطی پر تھے ۔ ابو طالب شبہ کا یہ پردہ پھاڑ نہ سکے ، اس لیے وہ ہدایت کوقبول کرنے سے بھی محروم رہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جنت ایک خدائی سودا ہے، اور وہ بہت مہنگا سودا ہے۔ أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ، أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الجَنَّةُ(سنن الترمذي، حدیث نمبر ۲۴۵۰)
جو شخص جنت کے اس مہنگے سودے کا خریدار بنا یا ہے، اس کو اس کی مطلوبہ قیمت دینی پڑے گی۔ اس قیمت کی ادائیگی کے بغیر وہ جنت کا مالک نہیں بن سکتا۔ وہ قیمت یہی " شبہ کے عنصر"کو عبور کرنا ہے، وہ شبہ کے اسی پر دہ کو پھاڑنا ہے۔ اسی نازک عمل کی ادائیگی پر آدمی کو دنیا میں ہدایت ملتی ہے اور آخرت میں ابدی جنت ۔
جنت ان نفیس اور لطیف روحوں کی آبادی ہے جو تمام ظاہری بڑائیوں سے گزر کر خدا کی چھپی ہوئی بڑائی کو پالیں۔ جو جوہر کی بنیاد پر چیزوں کو پہچاننے کا ثبوت دیں ۔ جو ہنگامہ کی دنیا سے نکل کر خاموشی کی بزم میں پہنچ سکیں ۔ جو ظواہر سے آگے بڑھ کر حقائق کو دیکھ سکیں۔ جو" اکابر "کے گنبدوں سے اوپر اٹھ کر سچائی کو وہاں دریافت کر لیں جہاں وہ بے گنبد حالت میں ظاہر کی گئی ہے۔
جنت بینا انسانوں کے لیے ہے ، وہ اندھے انسانوں کے لیے نہیں۔ وہ اصحابِ معرفت کے لیے ہے، وہ ظاہر پرستوں کے لیے نہیں۔ وہ اربابِ اکتشاف کے لیے ہے ، وہ جامدمقلدوں کے لیے نہیں۔ جنت ربانی لوگوں کے لیے ہے ، اور بلا شبہ ربانی لوگوں ہی کو جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔