شاه کلید
ایک عربی پرچے میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اس کا عنوان تھا: المفتاح العظيم (عظیم کنجی) اس میں بتایا گیا تھا کہ دعوت اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ماضی میں اسلام نے دعوت کے ذریعہ عالمی فتح حاصل کی تھی، آج بھی ہم دعوت کے ذریعہ دوبارہ اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
مسلمانوں کے اکثر لکھنے اور بولنے والے اسی طرح آجکل دعوت کی باتیں کر رہے ہیں۔ مگر عین اسی کے ساتھ یہ تمام لوگ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم اقوام کی سازشوں اور دشمنیوں کا بھی اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف وہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تم لوگ داعی بنو۔ اسی کے ساتھ وہ مسلمانوں سے مزید شدت کے ساتھ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ دنیا کی قومیں تمہارے لیے ظالم بھیڑیا بن گئی ہیں، اس لیے ان سے لڑکر ان کا خاتمہ کرو۔
یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کہی جاتی ہیں، مگر وہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک اگر دعوت ہے تو دوسری عداوت۔ غور کیجیے کہ وہ لوگ کون ہیں جن کو ظالم اور سازشی بتایا جاتا ہے۔ یہ وہی غیر مسلم قو میں ہیں جن کے اوپر ہمیں دعوت کا کام کرنا ہے۔ وہ ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ گویا مسلمان داعی ہیں اور ان کی پڑوسی غیر مسلم قو میں مدعو۔ اب اگر داعی کے دل میں یہ بٹھایا جائے کہ مدعو تمہارے لیے ظالم بھیڑیا ہے تو کیا وہ سچے داعیانہ جذبے کے ساتھ اپنے مدعو کے اوپر دعوت کا عمل جاری کر سکتا ہے۔ کیا وہ إنی لکم ناصح کی نفسیات کے ساتھ اس سے معاملہ کر سکتا ہے۔
دعوت سرتا سر محبت کا ایک عمل ہے۔ داعی کو آخر حد تک اپنے مدعو کی ہدایت کا حریص بننا پڑتا ہے، اس کے بعد ہی دعوت کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ مدعو اگر زیا دتی کرے تب بھی داعی اس کی زیادتیوں کو بھلا کر یک طرفہ طور پر اس کو اپنی دلچسپی کا موضوع بناتا ہے۔ وہ اپنے دل کو مدعو کی شکایات سے اتنا زیادہ خالی کرتا ہے کہ اس کے دل سے مدعو کے حق میں دعائیں نکلنے لگیں۔
لوگ دعوت کی باتیں کر تے ہیں مگر وہ اس کے آداب نہیں جانتے۔ لوگ داعی کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں، بغیر اس کے کہ وہ اس کے تقاضے کو پورا کریں۔ لوگ شہادت علی الناس کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، بغیر اس کے کہ انھوں نے اس کی قیمت ادا کی ہو۔
یہ صرف ان ملکوں کا معاملہ نہیں جہاں مسلمان کمزور اقلیت ہیں۔ ٹھیک یہی نفسیات ان ملکوں کے مسلمانوں کی بھی ہے جہاں انھیں اکثریت حاصل ہے۔ یا جہاں پوری کی پوری آبادی مسلمان ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اقلیتی علاقے کے مسلمانوں کو مقامی غیر مسلم طاقت سے شکایت ہے۔ اور اکثریتی علاقے کےمسلمانوں کو عالمی غیر مسلم طاقتوں سے۔ مثلاً یہودی، عیسائی، اشتراکی مستعمرین، مستشرقین وغیرہ۔
اسلام میں دعوت کی مصلحت ہر دوسری مصلحت پر مقدم ہے۔ دعوت کے مفاد کی خاطر ہر دوسری چیز کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ بذات ِخود کتنی ہی زیا دہ سنگین اور کتنی زیادہ اہم کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس معاملےمیں اتنی واضح رہنمائی کرتی ہے کہ طالبِ حق کے لیے ادنی ٰشبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہجرت سے کچھ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے۔ وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ حد درجہ تو ہین و تذلیل کا سلوک کیا جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ حتی کہ آپ نے خود حضرت عائشہ سے فرمایا کہ طائف کے دن سے زیادہ سخت دن میرے اوپر کوئی اور نہیں گزرا۔ روایات بتاتی ہیں کہ جب آپ غم اور تکلیف کے ساتھ طائف سے واپس ہوئے تو راستے میں اللہ کے حکم سے ملک الجبال (پہاڑوں کا فرشتہ) آپ کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ اللہ نے آپ کی قوم کی باتیں سنیں۔ میں ملک الجبال ہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کے ذریعہ اس بستی کو کچل ڈالوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی اگلی نسلوں سے ایسا شخص پیدا کرے گا جو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے۔أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، (صحيح البخاري:3231)
دعوت بلاشبہ مفتاح عظیم ہے، مگر اس مفتاح عظیم کو استعمال کرنے کے لیے قلب عظیم درکار ہے۔ اس کے لیے وہ کردار مطلوب ہے جس کو قرآن میں بلند اخلاق(خلق عظیم) کہا گیا ہے۔ قلب عظیم کے بغیر کوئی آدمی نہ تو وقت کے امکانات کو جان سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر وہ اس قابل ہو سکتا کہ وہ ان امکانات کو استعمال کر سکے۔
اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام کے لیے دعوت کو ابدی طور پر مفتاح عظیم بنا دیا ہے۔ اسلامی تاریخ کے دورِ اول میں مسلمانوں کو جو کچھ حاصل ہوا، دعوت کے ذریعہ حاصل ہوا۔ آج بھی انھیں جوکچھ ملے گا، دعوت کے ذریعہ ملے گا۔
مزید یہ کہ یہ مفتاح عظیم موجودہ زمانے میں مفتاح اعظم بن چکی ہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعہ عالمی تاریخ میں جو انقلاب آیا اور جس کے اثرات آج تک جاری ہیں، اس نے دعوت کے عمل کو ہمیشہ سے زیادہ آسان اور ہمیشہ سے زیادہ طاقت ور بنا دیا ہے۔
موجودہ زمانے میں صرف یہ نہیں ہوا ہے کہ جدید وسائلِ اعلام نے دعوت کی اشاعت و توسیع کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ علوم کے ارتقاء اور سائنسی تحقیقات نے اسلام کی حقانیت کو مزید ثابت شدہ بنا دیا ہے۔ آج اسلام کی صداقت خالص عقلی سطح پر ایک مسلّمہ صداقت بن چکی ہے۔ ہمارے اسلاف نے جو کام "عسر"کے حالات میں کیا، اب وقت آگیا ہے کہ اس کام کو "یسر"کے حالات میں انجام دیا جائے۔
دعوت اہلِ اسلام کے لیے شاہ کلید ہے، مگر وہ شاہ کلید اس وقت ہے جب کہ اس کو اس کے تمام آداب و شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے۔