امید کا پیغام

قرآن میں بعض انسانی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کی ناموافق صورت پیش آئے تو صبر اور توکل کا انداز اختیار کرو۔ اللہ تمہارا نگہبان ہے، وہ تمہارے لیے مشکل کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔سيجعل الله بعد عُسر يسراً(الطلاق:    7)

جس طرح ہماری زمین مسلسل گردش کر رہی ہے، اسی طرح انسان کے حالات بھی برابر بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی حال میں مایوس نہ ہو، وہ ہمیشہ نا امیدی پر امید کے پہلو کو غالب رکھے۔ حال کی بنیاد پر وہ کبھی مستقبل کے بارے میں اپنے یقین کو نہ کھوئے۔

 رات کے آنے کو اگر "آج"کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ اندھیرے کا آنا معلوم ہو گا۔مگر کل کے لحاظ سے دیکھیے تو وہ روشن صبح کے آنے کی تمہید بن جاتا ہے۔ خزاں کا موسم بظاہر پت جھڑ کا موسم دکھائی دیتا ہے مگر مستقبل کی نظر سے دیکھیے تو وہ بہار کے سرسبز و شاداب موسم کی خبر دینے لگے گا۔

 یہ قدرت کا اٹل قانون ہے۔ یہ قانون عام مادی دنیا کے لیے بھی ہے، اور اسی طرح انسانوں کی زندہ دنیا کے لیے بھی۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں۔

 جب دنیا کی تخلیق اس ڈھنگ پر ہوئی ہے تو کوئی انسان اس دنیا میں مایوس کیوں ہو۔ جب یہاں ہر تاریکی آخر کار روشنی بننے والی ہے تو وقتی حالات سے گھبرانے کی کیا ضرورت۔

 آدمی اگر یہاں کسی مشکل میں پھنس جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ صبر اور حکمت کے ساتھ اس سے نکلنے کی جد و جہد کرے۔ اگر بالفرض اس کے پاس جدو جہد کرنے کی طاقت نہ ہو تب بھی اس کو چاہیے کہ وہ خداپر بھروسہ کرتے ہوئے آنے والے کل کا انتظار کرے۔

 اس دنیا میں جس طرح محنت ایک عمل ہے، اسی طرح انتظار بھی ایک عمل ہے۔ جو شخص عمل کا ثبوت نہ دے سکے، اس کو چاہیے کہ وہ انتظار کا ثبوت دے۔ اگر اس نے سچا انتظار کیا تو عین ممکن ہے کہ وہ انتظار کے ذریعہ بھی اسی چیز کو پالے جس کو دوسرے لوگ محنت کے راستے سے تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قدرت کا نظام خود اپنے آخری فیصلہ کو ظہور میں لانے کے لیے سرگرم ہے، بشرطیکہ آدمی مقررہ وقت تک اس کا انتظار کر سکے۔

عربی کا ایک مقولہ ہے: رُبّ ضارة نافعة (بہت سی نقصان والی چیزیں نفع دینے والی ہوتی ہیں) یہ قول نہایت بامعنی ہے۔ وہ زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتاتا ہے۔ یہ کہ اس دنیا میں کوئی نقصان صرف نقصان نہیں۔ یہاں ہر عسرکے ساتھ یسر ہے۔ یہاں ہر نقصان کے ساتھ ایک فائدہ کا پہلولگا ہوا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس کو نقصان پیش آئے تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ نہ جائے، بلکہ اپنے ذہن کو سوچ کے رخ پر لگائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ایسا امکان دریافت کر لے جو نہ صرف اس کے نقصان کی تلافی کرے بلکہ اس کو مزیداضافے کے ساتھ کامیاب بنا دے۔

 ایک شخص دیہات میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوا۔ ۱۹۲۵ میں اس کے والد کا انتقال ہو گیا جب کہ اس کی عمر صرف۶ سال تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد خاندان والوں نے جائداد پر قبضہ کر لیا۔ اس کو ایک معمولی مکان کے سوا کوئی اور چیز نہیں ملی۔

مجبور ہو کر دس سال کی عمر میں وہ کمانے کے لیے نکلا۔ وہ دیہات سے نکل کر شہر میں چلا گیا۔ عرصہ تک وہ محنت مزدوری کرتا رہا۔ حالات نے اس کو دستکاری کے ایک کام میں لگا دیا۔ اپنی محنت سے وہ ترقی کر تارہا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک کار خانہ کھول لیا۔ اس کی ترقی جاری رہی۔ ۷۰ سال کی عمر میں جب وہ مرا تو وہ ایک بڑا صنعت کار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے کروروں روپیہ کی جائداد چھوڑی۔

 اس آدمی کے ساتھ اگر عسر کی حالت پیش نہ آتی۔ دیہات میں اس کے تمام کھیت اس کو مل جاتے تو وہ اسی میں لگ جاتا۔ وہ ایک کسان کی حیثیت سے جیتا اور کسان کی حیثیت سے مرتا۔مگر عسر اور نقصان نے اس کو اوپر اٹھایا۔ اس کے تلخ تجربات نے اس کو زرعی دور سے نکال کر صنعتی دور میں پہنچا دیا۔

زندگی کے امکانات کی کوئی حد نہیں۔ ہر بار جب ایک امکان ختم ہوتا ہے تو وہیں زیادہ بڑا امکان آدمی کے لیے موجود رہتا ہے۔ پھر کوئی شخص مایوس کیوں ہو۔ پھر آدمی نقصان پر فریاد و احتجاج کیوں کرے۔ کیوں نہ وہ نئے امکان کو استعمال کرے جو اس کی شام کو دوبارہ ایک روشن صبح میں تبدیل کر دینے والا ہے۔

 آدمی کو چاہیے کہ جب ایک امکان کا سرا اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو وہ کھوئی ہوئی چیز کا ماتم کرنے میں وقت ضائع نہ کرے۔ بلکہ نئے امکان کو دریافت کر کے اس کا استعمال شروع کر دے۔عین ممکن ہے کہ اس تدبیر کے ذریعہ وہ پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی اپنے لیے حاصل کر لے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom