مارکسزم کا خاتمہ

۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ کو تمام دنیا کے اخباروں کے پہلے صفحہ کی سرخی یہ تھی: میخائیل گوربا چیف نے استعفا دے دیا (Mikhail Gorbachev resigns) یہ استعفا محض ایک واقعہ کا رسمی اعلان ہے۔ کیوں کہ اس تاریخ سے بہت پہلے سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہو چکا تھا اور سوویت یونین کے آخری صدر کا بھی۔

 راقم الحروف نے ۳۵ سال پہلے مارکسی اشتراکیت پر ایک کتاب لکھی تھی۔ میں نے اس کتاب کا نام تجویز کیا تھا: مارکسزم تاریخ جس کو رد کر چکی ہے۔ پھر سوویت یونین کے سابق صدر نکیتا خروشچیف نے ۱۹۵۶ میں اسٹالن کے دور کے مظالم کا "جہنمی انکشاف" کیا تو یہ گو یا اشتراکی ایمپائر کے کھوکھلے پن کا داخلی اعتراف تھا۔ اس کے بعد ۱۹۸۹ میں برلن وال کا ٹوٹنا اشترا کی ایمپائر کے ٹوٹنے کا عملی آغاز بن گیا۔ دسمبر ۱۹۹۱ میں الما اتا کا نفرنس میں اس شکست کی تکمیل ہو گئی جب کہ اس کی بقیہ گیارہ ریاستیں ٹوٹ کر الگ ہوگئیں۔ اور نقشہ پر اشتراکی ایمپائر کے بجائے صرف سابق روس باقی رہ گیا۔

 اشترا کی ایمپائر کے ٹوٹنے میں بہت سے مختلف قسم کے سبق ہیں۔ تاہم اس واقعہ میں دو خاص سبق پائے جاتے ہیں۔ یہاں ان کا مختصراً  ذکر کیا جاتا ہے۔

 پہلا سبق یہ ہے کہ اس واقعہ نے آخری طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خدا اور مذہب کا عقیدہ مکمل طور پر ایک فطری عقیدہ ہے نہ کہ محض سماجی روایات کی پیداوار، جیسا کہ اشتراکی فلسفہ میں دعوی کیا گیا تھا۔

THE FINAL BREAK-UP (IMAGE)

اشتراکی نظریہ مکمل معنوں میں ایک لادینی نظریہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا اور مذہب کا عقیدہ محض ایک فرضی عقیدہ ہے جس کو استحصال پسند طبقہ نے اپنے مفاد کے لیے گھڑ لیا ہے۔ اس کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اشتراکی نظام کی موت نے اس افسانے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔

روس میں ۱۹۱۷ میں اشتراکی انقلاب آیا۔ اس کے بعد پوری اشترا کی مملکت میں سرکاری طور پرمذہب کا خاتمہ کر دیا گیا۔ عبادت خانے بند کر دیے گئے۔ مذہبی لٹریچر ممنوع قرار دے دیا گیا۔ کسی بھی قسم کی مذہبی سرگرمی خلافِ قانون قرار پا گئی۔ اخبار، ریڈیو، ٹیلی وژن، سب خلاف ِمذہب پروپگنڈے کے لیے وقف کر دیے گئے۔ تعلیمی نظام شروع سے آخر تک مذہب کی نفی کی بنیاد پر قائم کر دیا گیا۔ وغیرہ۔

۷۵ سال تک اسی نہج پر پوری اشترا کی سوسائٹی کا نظام چلایا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ تمام لوگ مرکر ختم ہوگئے جو قدیم مذہبی سماج میں پیدا ہوئے تھے۔ اب اشتراکی سماج تقریباً سب کا سب ان افراد پرمشتمل تھاجن کی پرورش نئے غیرمذہبی سماج میں ہوئی تھی۔

مگر تجر بہ حیرت انگیز طور پر الٹا بر آمد ہوا۔ اشتراکی سماج کے تقریباً ۹۹ فی صد لوگ اشتراکیت کے مخالف ہو گئے۔ دوسری طرف مذہب کا یہ حال ہوا کہ وہ ہر قسم کے مخالفانہ حالات کے باوجود بدستور لوگوں کے دلوں میں باقی رہا۔ چنانچہ آج جب اشترا کی سماج میں آزادی آئی ہے تو تمام مسجدیں اور تمام چرچ بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف اشترا کی لیڈروں کے مجسمے گرائے جارہے ہیں اور دوسری طرف عبادت خانے از سرِ نو تعمیر کیے جار ہے ہیں۔ اشتراکی لٹریچر جلایا جارہا ہے اور قرآن اور بائبل کے نسخے کروروں کی تعداد میں لوگوں کے گھروں میں پہنچ رہے ہیں۔

 خدا کا عقیدہ فطرتِ انسانی کا لازمی حصہ ہے اس لیے وہ باقی رہا۔ اشتراکیت ایک گھڑا ہوا بے بنیاد فلسفہ تھا اس لیے اس کا خاتمہ ہو گیا۔

دوسر اسبق

خلیج کی جنگ کے بعد انہدام کا جو واقعہ اشتراکی ایمپائر کے ساتھ پیش آیا ہے، وہی واقعہ دوسری عالمی جنگ کے بعد برٹش ایمپائر کے ساتھ پیش آچکا ہے۔ مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ برٹش ایمپائر کا خاتمہ بنیادی طور پر خارجی خطرہ کی بنیاد پر ہوا تھا۔ برطانیہ کے زیر ِقبضہ علاقوں میں ہر جگہ نیشنلزم کی تحریکیں پھیل گئیں۔ ان تحریکوں نے ہر ملک میں قومی حکومت کا رجحان پیدا کیا۔ اس کے نتیجہ میں نو آبادیاتی حکومت کی جڑیں اکھڑ گئیں۔ برطانیہ کو اپنے زیرِ قبضہ علاقوں کو چھوڑ دینا پڑا۔

اس کے بر عکس اشتراکی ایمپائر کے خاتمہ کا بنیادی سبب داخلی ہے۔ اجتماعی ملکیت کے غیر فطری نظام کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے علاقے میں اشیاء صرف کی بھیانک قلت ہوگئی۔ ٹائم میگزین (۳۰ دسمبر ۱۹۹۱) نے صفحہ ۱۳ پر ما سکو کے ایک بڑے اسٹور کی تصویر چھاپی ہے۔ پورا اسٹور خالی پڑا ہوا ہے۔ اس کے ایک کنارے صرف دو قمیصیں ہینگر پر لٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ میں نے جولائی ۱۹۹۰ میں سوویت یونین کا سفر کیا تھا۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ سڑکوں پر لمبی لمبی قطاریں صرف روٹی حاصل کرنے کے لیے لگی ہوئی ہیں۔ اس میں بھی صرف آگے کے کچھ لوگوں کو روٹی ملتی تھی اور اس کے بعد یہ کہہ کر کھڑکی بند کر دی جاتی تھی کہ روٹی ختم ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں اشتراکی روس میں نئے قسم کے فسادات شروع ہو گئے جن کو غذائی فساد (food riots) کہا جاتا ہے۔ اشتراکی ایمپائر کا انہدام بنیادی طور پر اس لیے پیش آیا کہ سامانِ حیات سے محرومی نے عوام کو اس کا مخالف بنا دیا تھا۔

 برٹش ایمپائر اور اشتراکی ایمپائر کے اس تقابل سے ایک نہایت اہم سبق ملتا ہے۔ وہ یہ کہ خارجی خطرہ کسی قوم کے وجود کے لیے جتنا سنگین ہے، اتنا ہی داخلی خطرہ بھی اس کے وجود کے لیے سنگین ہے۔ بلکہ داخلی خطرہ زیادہ سخت ہے۔ کیوں کہ خارجی خطرہ کسی مملکت کو صرف جزئی طور پر نقصان پہنچاتا ہے، جب کہ داخلی خطرہ مکمل طور پر اس کو منہدم کر دیتا ہے۔

خلاصہ

مارکسی اشتراکیت کے انہدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی دشمنِ مذہب یا دشمنِ اسلام، خواہ وہ کتنا ہی زیادہ طاقت ور ہو، وہ دینِ حق کو کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ دین حق کی جڑیں فطرت کے نظام میں اتنی گہری ہیں کہ کسی انسانی طاقت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس کو کوئی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکے۔

 اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم کو اپنی ساری توجہ ملت کے داخلی استحکام پر صرف کرنا چاہیے۔ داخلی استحکام کی موجودگی میں ہر خارجی طوفان بے اثر رہتا ہے۔ اور جب داخلی استحکام باقی نہ رہے تو اس کے بعد کوئی بھی چیزملت کو زوال کے انجام سے نہیں بچا سکتی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom