قیمت کا مسئلہ
مولانا فرید الوحیدی جدہ میں رہتے ہیں۔ انھوں نے یکم نومبر ۱۹۹۱ کی ملاقات میں ایک بہت بامعنی مقولہ سنایا۔ انھوں نے کہا کہ ایک شخص جو ماونٹ ایورسٹ کو فتح کرنا چاہتا ہو وہ کبھی جوتوں کی قیمت کی گنتی نہیں کرتا:
One who wants to conquer the mount Everest, never counts the cost of his shoes.
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے سامنے چھوٹا مقصد ہو تو معمولی کوشش سے آپ اس کو حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کوئی بڑا مقصد اپنے لیے منتخب کریں تو آپ کو یہ بھی جاننا ہو گا کہ بڑا مقصد بڑی قیمت بھی مانگتا ہے۔ جو شخص بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہو اس کو بڑی قیمت دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
بڑی کامیابی کسی کی اجارہ داری نہیں۔ ہر آدمی بڑی کامیابی تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کم لوگ بڑی کامیابی تک پہنچ پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بڑی کامیابی کی قیمت ادا نہیں کرتے۔ بازار میں کم قیمت پر کم چیز ملتی ہے اور زیادہ قیمت پر زیادہ چیز۔ یہی زندگی کا اصول بھی ہے۔ زندگی کا قانون ایک لفظ میں یہ ہے کہ–––– جتنا دینا اتنا ہی پانا، نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔
قیمت کا مطلب لڑنا یا خون بہانا نہیں ہے۔ اس کا تعلق مال سے بھی نہیں ہے۔ اس کا تعلق سب سے زیادہ نفسیات سے ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑی قیمت وہ ہے جو نفسیات کی سطح پر دی جاتی ہے۔ نفسیاتی قیمت سے مراد ہے: ناگواریوں کو برداشت کرنا۔ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونا۔ لوگوں کے نارواسلوک کے باوجود اپنی طرف سے بدسلوکی نہ کرنا۔ مایوسی کے حالات میں بھی حوصلہ نہ کھونا۔ نقصان پیش آنے کے باوجود اپنی امید قائم رکھنا۔ تاریک حالات میں بھی روشنی کی کرن دیکھ لینا۔
سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آدمی کے سینے میں غصہ اور انتقام کی آگ بھڑ کے مگر وہ سینے کے اندر ہی اس کو بجھادے۔ آدمی کو کسی سے تکلیف پہنچے پھر بھی وہ اس کے بارے میں بدگمان نہ ہو۔ آدمی کومنفی حالات سے سابقہ پیش آئے اس کے باوجود وہ مثبت نفسیات پر قائم رہے۔ وہ حالات سے اوپر اٹھ کر جیے نہ کہ حالات کے اندر۔