فکری قیادت

ہم بحران کے ایک دور سے گزر رہے ہیں۔ اقتصادی بحران، سیاسی بحران، عسکری بحران۔ مگر ان سب سے زیادہ بڑا بحران وہ ہے جس کو فکری بحران (Intellectual Crisis) کہا جاسکتا ہے۔ آج کا انسان کسی ایسی فکری بنیا د سے محروم ہے جس پر وہ کھڑا ہو سکے۔ جس پر وہ اپنی زندگی کی بنیادر کھے۔

 قدیم دور توہم پرستی کا دور تھا۔ اس زمانے میں انسان کے لیے  یہ ممکن تھا کہ وہ مفروضات اور تو ہمات پر جی سکے۔ آج کا زمانہ تعقل (reason) کا زمانہ ہے۔ آج انسان تعقل پر جینا چاہتا ہے۔ مگر جب انسان ایسا کرنا چاہتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس جینے کے لیے  کوئی عقلی بنیاد موجود ہی نہیں۔

دو چیزیں ہیں جو انسان کے لیے  فکری بنیاد بن سکتی ہیں–––––  مذہب یا سائنس۔ یعنی الہامی علم یا سائنٹفک علم۔ مگر جدید انسان نے یہ دونوں ہی بنیادیں کھو دی ہیں۔

 قدیم ترین زمانے سے انسان مذہب کو اپنے لیے  فکری بنیاد بنائے ہوئے تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں جب مذہب کو عقل کی روشنی میں دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ مذاہب عقل کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ مثال کے طور پر بائبل کو لیجیے۔ بائبل میں ایک طرف توحید کی آیت ہے:

Hear, O Israel: The Lord our God is one Lord. (Deuteronomy 6:4)

اسی کے ساتھ بائبل کا عقیدہ رکھنے والے لوگ اسی بائبل سے تثلیث کو بھی نکالتے ہیں۔ اور اس کا ماخذ ان کے نزدیک نئے عہد نامہ کی یہ آیت ہے:

Go ye therefore, and teach all nations, baptizing them in the name of the father, and of the Son, and of the Holy Ghost. (Matthew 28:19)

یہ انسانی عقل کے لیے  ایک ناقابلِ فہم بات ہے۔ کیونکہ خدا اگر ایک ہے تو وہ تین نہیں ہو سکتا۔ اور اگرخداتین ہے تو وہ ایک نہیں ہو سکتا۔

 اسی طرح نئے عہد نامہ میں ایک جگہ یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا (Son of God) کہا گیا ہے۔ (مرقس 1: 1) اور اسی کے ساتھ اس میں یسوع مسیح کو داؤ د کا بیٹا (Son of David) لکھا گیا ہے (1:1 Matthew)اس قسم کے تضادات بائبل میں کثرت سے موجود ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے عقیدہ کے مطابق، خدا کے کلام میں انسانی آمیزش سے پیدا ہوا ہے جس کو تحریف کہا جاتا ہے۔ ان تحریفات نے بائبل کو جدید انسان کے لیے  ناقابلِ قبول اور ناقابلِ فہم بنا دیا ہے۔

 اب سائنس کے اعتبار سے لیجیے۔ جدید سائنس کے ظہور کے بعد انسان نے یہ سمجھا کہ وہ سائنس کی فکری بنیاد پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ مگر سائنس کی ترقی انسان کو اطمینان نہ دے سکی۔ اس نے انسان کو صرف ذہنی بحران میں مبتلا کیا۔

سائنس نے جو کائنات دریافت کی ہے اس میں مکمل نظم ہے۔ مکمل ڈیزائن ہے۔ وہ ایک نہایت با معنی کائنات ہے۔ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو جیہہ پسند حیوان ہے۔ چنانچہ وہ کائنات کی توجیہہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر جدید سائنس داں خدا کے بغیر کائنات کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی توجیہہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ یہی وہ احساس ہے جس کا اظہار شروڈنگر اور دوسرےسائنس دانوں نے ان الفاظ میں کیا کہ فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ وہ قابلِ فہم ہے:

....there are aspects which are extremely difficult to understand. A famous remark of Einstein–– and other people have said similar things; Schrodinger in particular–– that the most comprehensible thing about nature is that it is comprehensible.

جدید انسان کی یہی وہ صورت حال ہے جس کو میں نے فکر ی بحران کہا ہے۔ آج کا انسان بہت بڑے پیمانے پر اپنے آپ کو اس فکری بحران میں گھرا ہوا پاتا ہے، وہ اپنے لیے  ایک فکر ی بنیاد حاصل کرنے کے لیے  مذاہب کی طرف دیکھتا ہے۔ مگر مذاہب (تحریف کی بنا پر) اس کے عقلی معیار پر پورے اترتے نظر نہیں آتے۔ اس کے بعد وہ سائنس کی طرف دیکھتا ہے مگر سائنس بھی اسے ذہنی اطمینان عطا نہیں کرتی۔

 اس فکری بحران کا حل صرف ایک ہے اور وہ غیر محرف مذہب ہے جس کو اسلام کہا جاتا ہے۔اسلام تحریف سے پاک ہے وہ اپنی اصل الہامی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ اس بنا پر وہی اس پوزیشن میں ہے کہ جدید انسان کو فکری رہنمائی دے سکے۔ اسلام انسان کو ایک طرف وہ سچا مذ ہب عطا کرتا ہے جو اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اور اس کو خالص توحید کا وہ عقیدہ فراہم کرتا ہے جس سے وہ کائنات کی توجیہہ کر سکے۔ آج انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کو اسلام سے متعارف کیا جائے جو واحد نظام ہے جو انسانیت کو فکری بحران سے نکال سکتا ہے۔

 یہاں میں دو و اقعے نقل کروں گا جو علامتی طور پر بتاتے ہیں کہ کس طرح اسلام انسانیت کو موجودہ فکری بحر ان سے نکال کر اس حالت تک پہنچانے والا ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: سن لو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے )۱۳: ۲۸)

۱۔ ڈاکٹر نشی کا نت چٹوپادھیائے انڈیا کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہند و تھے۔ انھوں نے ۱۹۰۴ میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ انھوں نے اپنے ذہنی سفر کا حال ایک کتاب میں بیان کیا ہے جس کا نام ہے:

Why have I accepted Islam?

ڈاکٹر چٹوپادھیائے لکھتے ہیں کہ جب میں بڑا ہوا تو مجھے اپنے آبائی مذہب سے بے اطمینانی ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے مذاہب کا مطالعہ شروع کیا۔ مگر ہر مذہب مجھے غیر تاریخی نظر آیا۔ ان کی کتا بیں اور ان کی شخصیات کوئی بھی تاریخ کے معیار پر پوری اترتی نظر نہیں آئیں۔ آخر میں انھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا تو اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی ایک ایک چیز انہیں مکمل طور پر تاریخ کی روشنی میں نظر آئی۔ انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کتاب میں یہ جملہ لکھا ہے کہ اف، اس پانے میں کیسی راحت ہے کہ آدمی آخر کار ایک سچے تاریخی پیغمبر کو پالے جس پر وہ یقین کر سکے:

Oh! What a relief to find, after all, a truly historical Prophet to believe in.

۲۔فرانس کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ڈاکٹر گارودی (Roger Garaudy) کو حقیقت کی تلاش ہوئی۔ انہوں نے مختلف فلسفہ اور مذاہب کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ وہ اسلام پر  مطمئن ہوئے اور ۱۹۸۲ میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اسلام کیوں قبول کیا تو انھوں نے کہا میں نے اسلام اس لیے  قبول کیا تاکہ میں اپنی زندگی کو با معنی بنا سکوں۔

یہ دونوں واقعات علامتی طور پر بتاتےہیں کہ آج کے انسانوں کو سب سے زیادہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ آج کے انسان کو سب سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے جس کو ڈاکٹر بریڈلے نے نیو ریلیجن کہا تھا۔ اور جس کا متعین نام اسلام ہے۔ یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کو موجودہ مسلمان عالم ِانسانیت کو دے سکتے ہیں۔

یہاں میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کو اسلام کا پیغام دینا سادہ طور پر محض اعلان کا معاملہ نہیں ہے یہ عظیم صبر کا معاملہ ہے۔ مسلمانوں کو موجودہ زمانے کی مدعو اقوام سے طرح طرح کی ایذائیں پہنچ رہی ہیں۔ اس کے ردِ عمل میں ایسا ہوا ہے کہ مسلمان اپنی مدعوا قوام کے خلاف غصہ اور شکایت کی نفسیات سے بھر گئے ہیں۔ اس طرح کی نفسیات کے ساتھ دعوت کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ دعوت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے  مسلمانوں کو ردِ عمل کی نفسیات سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ انھیں مدعو اقوام کی ڈالی ہوئی ایذاؤں کو یک طرفہ طور پر برداشت کرنا ہوگا۔ اس قربانی کے بعد ہی وہ موجودہ دنیا میں اسلام کے داعی بن سکتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں پیغمبروں کی زبان سے ان لفظوں میں بتائی گئی ہے کہ ہم ضرور تمہاری ایذاؤں پر صبر کریں گے )۱۴: ۱۲(

 آخر میں میں کہوں گا کہ جدید انسان کا فکری بحران میں مبتلا ہونا اور مسلمانوں کے پاس اجارہ داری کی حد تک اس فکری بحران کا حل موجود ہونا مسلمانوں کو یہ موقع دے رہا ہے کہ وہ آج کی دنیا کے فکر ی قائد بن سکیں۔ مگر یہ عالمی قیادت انھیں صرف صبر کی زمین پر ہی مل سکتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا قرآن میں ان الفاظ میں اعلان کیا گیا:

 ہم ان کو آفاق میں اور خود ان کے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے )۴۱ /۵۳(

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom