سفرنامہ امریکہ - ۴
۵ دسمبرکی صبح کو میں نماز فجر کے بعد مسجد سے رہائش گاہ کی طرف آرہا تھا۔ ایک کراسنگ پر انھوں نے اپنی گاڑی روک دی۔ حالاں کہ سامنے ہری بتی جل رہی تھی۔ دوسری طرف سامنے کی سڑک سے ایک اور بڑی گاڑی آئی، وہ رکے بغیر گزر گئی۔ حالاں کہ وہاں لال بتی جل رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دوسری گاڑی ایمبولنس کی گاڑی تھی۔ وہ خاص الارم بجاتے ہوئے جار ہی تھی۔ ایمبولنس یا فائر بریگیڈ کی گاڑی جب کسی راستہ سے گزرے تو ہمیشہ ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ وہ مسلسل اپنی منزل کی طرف چلتی رہتی ہے خواہ وہاں لال بتی ہو۔ اور دوسری گاڑیاں کھڑی ہو جاتی ہیں خواہ ان کے سامنے ہری بتی جل رہی ہو۔
جب کہیں ایمر جنسی پیش آجائے تو تمام سرگرمیوں کو روک کر ایمر جنسی کی طرف دوڑنا پڑتا ہے۔ یہ حیاتِ دنیا کا قانون ہے۔ یہی معاملہ مزید شدت کے ساتھ آخرت کے لیے ہے۔ جب لوگ ہدایت سے دور ہو جائیں اور حیاتِ آخرت کے اعتبار سے لوگوں کے لیے نقصان کا اندیشہ ہو تو تمام دوسری سرگرمیوں کو روک کر لوگوں کو ہدایت کا پیغام پہنچایا جائے گا۔ اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگ ہدایت کے راستہ پر نہ آجائیں۔
لاس اینجلیز کی کانفرنس ۲۴ - ۲۵ نومبر میں امام عزت اللہ المجددی سے ملاقات ہوئی۔ وہ افغانی لیڈر پروفیسر صبغت اللہ المجددی کے بھائی ہیں۔ نہایت ذہین آدمی ہیں اور کئی زبانیں جانتے ہیں۔ وہ جہادِ افغانستان میں زخمی ہو گئے تھے۔ علاج کے بعد اب اچھے ہیں۔ افغانی قوم ایک نہایت جاندار قوم ہیں۔ اس کے اندر غیر معمولی صلاحیت ہے۔ مگر سیکڑوں سال سے یہ صلاحیت جنگ و قتال کی راہ میں لگی ہوئی ہے۔ اس سے افغانی قوم کی بہادری کی مثالیں تو ضرورقائم ہوئی ہیں۔ مگر اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ افغانستان اپنے سارے امکانات کے باوجود کسی بھی اعتبار سے ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا۔
پچھلی صدی میں افغانیوں نے انگریزوں کا سیاسی غلبہ اپنے ملک میں ہونے نہیں دیا۔ موجودہ صدی میں انھوں نے روسیوں سے لڑ کر انھیں ملک سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ مگر اسلامی نقطۂ نظر سے میں اس کو کوئی بڑا کارنامہ نہیں سمجھتا۔ اسلامی اعتبار سے ان کے لیے زیادہ بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ دنیا سے شرک اور الحاد کا خاتمہ کرتے۔ مگر افغانی لیڈروں نے افغانی قوم کو اس راہ پر کبھی نہیں لگایا۔
کا نفرنس میں بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر عاقل خاں راجپوت تھے۔ وہ امریکہ کے محکمہ میزائل (Missile Weapons Systems) میں ایک بڑے عہدے پر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ الور کے ایک گاؤں مونڈ اور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۷ کے ہنگامہ میں وہ پاکستان چلے گئے۔ اس کے بعد امریکہ آکر سائنسی تعلیم حاصل کی اور ترقی کرتے ہوئے موجودہ عہدے پر پہنچ گئے۔
۱۹۴۷ میں بے بسی کے عالم میں کوئی شخص ان کو الور سے بھاگتے ہوئے دیکھتا تو وہ ان کے معاملے کو صرف ظالم اور مظلوم کا ایک معاملہ سمجھتا۔مگر ۱۹۴۷ کا مظلوم نوجوان ۱۹۹۰ کا ہیروانسان ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مشکل حالات آدمی کے لیے زحمت کے بھیس میں رحمت (blessing in disguise)کے ہم معنی ہیں۔مشکل حالات آدمی کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو جگاتے ہیں۔اور کسی آدمی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اس کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھیں ہوں۔
صغیر اسلم صاحب کے یہاں ۲۲ نومبر کو ایک سفید فام امریکی نوجوان لینی (Lenney) بطور کاریگر کام کرنے کے لیے آیا۔ وہ خوش پوش اور صحت مند تھا۔ کار پر بیٹھ کر آیا تھا۔ میرا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ یہاں کے مزدور اور کاریگر بہت اچھی حالت میں ہیں۔ اگلے دن ۲۳ دسمبر کو امریکی عیسائیوں کا خصوصی تہوار تھینکس گوِنگ((Thanksgivingتھا۔ اس لیے اس نے ۲۳ نومبر کو چھٹی کرلی۔ دوپہر کو صغیر اسلم صاحب کے پاس اس کا ٹیلیفون آیا کہ میرے پاس پیسہ نہیں ہے، اس لیے کل کی مزدوری مجھے پیشگی دے دو۔ اس کے بعد وہ اپنی گاڑی پر آیا اور۱۰ ڈالر پیشگی لے کر چلا گیا۔
یہ چھوٹا سا واقعہ عام امریکیوں کے مزاج کو بتاتا ہے۔ عام امریکی بے پناہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس پیسہ باقی نہیں رہتا۔ اکثر اوقات وہ مقروض رہتے ہیں۔ مزید یہ کہ بظاہر خوش پوشاک اور خوش و خرم آدمی اندر سے غیر مطمئن ہوتا ہے۔ حقیقی خوشی سے محرومی کی تلافی وہ شراب کے ذریعہ کرتا ہے۔ امریکیوں کی غلط عادتوں نے، ساری ترقی کے باوجود، انھیں اندر سے کھوکھلا کر رکھا ہے۔
محمد اسد صاحب کے انگریزی ترجمۂ قرآنThe Message of the Qur'an)) کا ذکر سنا تھا مگر اس کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ یہاں اس کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میرے سامنے جو نسخہ ہے، وہ نہایت عمدہ چھپا ہو ا صرف ایک جلد میں ہے۔ اس کے ایک ہزار صفحات ہیں۔ وہ انگلینڈ میں چھپا ہے اور درج ِذیل ادارےنے اس کو شائع کیا ہے:
Dar al-Andalus Limited, 3 Library Ramp, Gibraltar
تشریحی نوٹوں میں محمد عبدہ (المنار) کے کافی حوالے ہیں اور اسی طرح الرازی کے بھی۔ تاہم بیشتر مقامات پر تشریح کا انداز روایتی ہے۔ مثال کے طور پر عسى أن يبعثك ربك مقاماً محموداً کا ترجمہ مع تشریح یہ کیا ہے:
...and thy sustainer may well raise thee to a glorious station (in the life to come).
ترجمہ کے سلسلے میں میرا ذوق یہ ہے کہ اس کو خالص لفظی ہونا چاہییے۔ تشریحی ترجمہ مجھے ذاتی طور پر پسند نہیں۔ مگر اسد صاحب نے جگہ جگہ تشریحی ترجمے کیے ہیں۔ مثال کے طور پر إن مع العسر يسرا ً کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
Verily, with every hardship comes ease.
اس ترجمہ میں کوئی مزید تشریح درج نہیں ہے۔ اس ترجمہ میں comes کا لفظ تشریحی اضافہ ہے۔ اس سے آیت کی اصل معنویت متاثر ہو جاتی ہے۔ صحیح لفظی ترجمہ اس طرح ہونا چاہیے:
Verily, with every difficulty there is ease.
محمد اسد صاحب بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تفسیر میں وہ گہرائی نہیں جو ایک محقق کے یہاں ملتی ہے۔ مثال کے طور پر یورپ اور امریکہ کے مستشرقین کا ایک اعتراض قرآن پر یہ ہے کہ اس میں تصنیفی یکسانیت نہیں۔ اس میں (incoherent rambling) پائی جاتی ہے۔ مثلاً کہیں اللہ کا لفظ ہوگا کہیں وہ، کہیں ہم اور کہیں میں، کہیں ہم پر اور کہیں مجھ پر۔
اس کا جواب محمد اسد صاحب نے یہ دیا ہے:
These changes are... a linguistic device meant to stress the idea that God is not a person and cannot, therefore, be really circumscribed by the pronouns applicable to finite beings. (Foreword)
یہ جواب مجھے سطحی معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں اس قسم کے فرق کا سبب کوئی الہٰیاتی مسئلہ نہیں۔ یہ صرف لسانی اسلوب ہے۔ مستشرقین قرآن کو اپنے معروف تصنیفی معیار پر جانچنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن ایک دعوتی کتاب ہے، اس میں داعیانہ انداز ِکلام اختیار کیا گیا ہے۔ اور دعوتی کلام یا داعیانہ اسلوب میں اس قسم کا فرق عین مطلوب ہے، کیوں کہ اس سے کلام میں زور اور تاثیر پیدا ہوتی ہے۔
صغیر اسلم صاحب پاکستان سے ۱۹۵۷ میں کیلی فورنیا (امریکہ) آئے۔ اس وقت وہ نوجوان تھے۔ وہ یہاں کی فضا میں عریانیت اور فحاشی کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہاں اپنے ایمان و اخلاق کو کس طرح بچائیں۔ انھوں نے بتایا کہ چودھری محمد علی (سابق وزیر اعظم پاکستان) ان کے رشتہ دار تھے۔ صغیر اسلم صاحب نے چودھری محمد علی صاحب سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں ہے کہ نماز آدمی کو فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ اس لیے میں تم کو صرف ایک مشورہ دیتا ہوں۔ تم نماز کے پابند بن جاؤ۔ نمازہ تم کو محفوظ رکھے گی۔ صغیر اسلم صاحب نے اس مشورہ کو پکڑ لیا اور خدا کے فضل سے امریکہ میں ۳۳ سال سے مومن و مسلم بن کر رہ رہے ہیں۔
اس واقعہ کو میں نے سنا تو میں نے سوچا کہ پاکستان بننے کے بعد اس کے ابتدائی دور میں کیسے کیسے قیمتی لوگ پاکستان کو ملے تھے۔ مگر اسلام پسندوں کی مجنونانہ سیاست کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کے بہترین لوگ استعمال ہونے سے رہ گئے۔ ان میں سے بہت سے لوگ تھے جو وہاں کے خلفشار کو دیکھ کر باہر کے ملکوں میں جاکر رہنے لگے۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستان بنے ہوئے تقریباً ۴۵ سال ہو گئے۔ مگر پاکستان کو جتنا ترقی کرنا چاہیے تھا وہ نہ کر سکا۔ میں نے کہا کہ سب سے زیادہ ذمہ داری ان نام نہاد اسلام پسندوں پر ہے جو پاکستان بنتے ہی وہاں کے حکمرانوں سے لڑ گئے۔ اگر یہ لوگ عملی سیاست سے الگ رہ کر افراد سازی اور اصلاحِ معاشرہ کے کام میں لگتے تو آج پاکستان کی تصویر بالکل مختلف ہوتی۔
ایک صاحب ہندستان سے امریکہ آئے اور اب یہاں کے شہری ہو کر آرام کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ وہ یہاں ایک سرکاری محکمہ میں ایک اچھے عہدہ پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندستان کے حکمراں منافق ہیں، وہ سیکولرزم کی باتیں کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا معاملہ کرتے ہیں۔ آپ لوگ ان کے خلاف جہاد کیوں نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ امریکہ اس سے بڑا منافق ہے۔ وہ کویت میں صدام کے قبضہ (occupation) کی مذمت کرتا ہے اور اس کو ختم کر نا چاہتا ہے۔ دوسری طرف یہی امریکہ فلسطین میں یہودیوں کے قبضہ کی حمایت اور سر پرستی کر رہا ہے۔ اس کے باوجود آپ امریکہ کے ساتھ ایڈجسٹ کر کے یہاں رہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ڈبل اسٹینڈرڈ ہیں۔ اپنے لیے آپ ایڈ جسٹمنٹ کا اصول پسند کرتے ہیں اور دوسروں کو جنگ اور ٹکراؤ کا مشورہ دے رہے ہیں۔
۲۲ نومبر کو صغیر اسلم صاحب کو ایک ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا گیا کہ دیکھوں یہاں کے ڈاکٹروں کے کلینک کیسے ہوتے ہیں۔ واپسی میں ایک مسئلہ پیش آگیا۔ صغیر اسلم صاحب جب اپنی گاڑی میں بیٹھے اور اس کو اسٹارٹ کرنا چاہا تو کوشش کے با وجود وہ اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ یہ نئی اسٹرلنگ (Sterling) گاڑی تھی۔ خیال ہوا کہ شاید بیٹری ختم ہو گئی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے وہیں سے انشورنس کمپنی کو ٹیلیفون کیا۔ اس کے صرف آٹھ منٹ بعد ان کا آدمی ایک بڑی گاڑی لے کر آگیا جس میں ٹیلیفون سے لے کر کرین تک ہر چیز موجود تھی۔ آدمی نے کافی کوشش کی۔ مگر گاڑی اسٹارٹ نہ ہوسکی۔ آخر کار اس نے کہا کہ اب یہ گاڑی ورک شاپ جائے گی۔ اس نے اپنے آفس کو ٹیلیفون کر کے گاڑی کو ورک شاپ بھیجنے کا انتظام کیا اور ہم لوگوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر گھر تک پہنچا دیا۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ یہاں کام کرنے کا انداز کیا ہے۔ یہی وہ سہولتیں ہیں جن کی بنا پر ہندرستان (اور دوسرے ملکوں)کے اکثر ذہین اور تعلیم یافتہ لوگ اپنے ملکوں کو چھوڑ کر مغربی ملکوں میں پہنچ رہے ہیں۔ ہندستان میں مندر اور مسجد کے جھگڑوں پر اور جلوس اور نعروں کے ہنگاموں پر کروڑوں لوگ سرگرم ہیں۔ حتی کہ اپنا جان و مال تباہ کر رہے ہیں۔ مگر ملک میں کار کردگی کا اعلیٰ ماحول بنانے کے لیے کوئی سرگرم نہیں ہوتا۔
ایک تاجر کے دفتر میں میں نے دیکھا کہ ایک امریکی خاتون بطور سکر یٹری کام کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے تجربہ میں کس ملک کے ور کر سب سے اچھے ہوتے ہیں۔ انھوں نے فوراً کہا کہ جاپانی۔ انھوں نے کہا کہ جاپانی ور کر نہایت و فادار، نہایت محنتی اور نہایت دیانتدار ہوتا ہے۔ یہاں ہر آفس والا جاپانی ور کر کو پسند کرتا ہے۔ مگر جاپان کے لوگ زیادہ تر بزنس کے لیے آتے ہیں۔ وہ ملازمتوں کے لیے کم آتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ایک ٹیلیویژن پروگرام میں انھوں نے دیکھا کہ جاپان میں ور کروں کی تربیت کے لیے بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ وہاں بہت سے ادارے ہیں جو نہایت اعلی ٰپیمانہ پر تربیت دے کر اپنے افراد کے اندر وہ صفات پید اکرتے ہیں جس کے بعد وہ بہترین کارکن بن سکیں۔ میں نے سوچا کہ ہندستان کے نام نہاد مسلم لیڈر اگر صرف یہ کرتے کہ وہ ایسے ادارے قائم کریں جو مسلمانوں کو تربیت دے کر عمدہ کا رکن بنا ئیں تو آج مسلمان ملک کی غالب کمیونٹی کا مقام حاصل کرلیتے۔ مگران نا اہل لیڈروں نے مسلم عوام کو جذباتی نعروں پر دوڑا کر صرف ان کی بربادی کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
صغیر اسلم صاحب ان مستثنیٰ افراد میں سے ہیں جو اپنی فطرت پر قائم رہتے ہیں۔ مثلاً ان کے ساتھ اشتعال انگیزی کی جائے تب بھی وہ مشتعل نہیں ہوتے۔ ایک بار ایک صاحب ان پر غصہ ہو گئے اور مجمع کے اندر انھیں برا بھلا کہنے لگے۔ وہ صاحب نہایت سخت الفاظ بول رہے تھے، مگر صغیر اسلم صاحب انھیں کوئی جواب نہیں دے رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ وہ آپ کے ساتھ اتنی سخت کلامی کر رہے ہیں اور آپ اس کے جواب میں کچھ نہیں بولتے۔ صغیراسلم صاحب کا مختصر جواب یہ تھا: یہ ان کا پر ابلم ہے، میرا پر ابلم تو نہیں۔
ہر آدمی پیسہ کمانا چاہتا ہے۔ اس اعتبار سے ہر ملک گویا تجارتی ملک ہے۔ مگر امریکہ میں تجارت کو ایک خوب صورت فن بنا دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کی چیزوں کےنام پر بے شمار تجارتیں وجود میں آئی ہیں۔ انھیں میں سے ایک بچوں کا لٹریچر ہے۔ بچوں کےلیے کتابیں اتنے خوب صورت اور اتنے معیاری انداز میں چھاپی جاتی ہیں کہ ماں باپ اس کوخرید نے کے لیے مجبور ہو جائیں۔
مثلاً ایک کتاب نظر سے گزری۔ ۲۰۰ صفحہ کی اس خوب صورت کتاب کا نام تھا–––– مجھ کو بتاؤ کہ کیوں (Tell Me Why) نام کے نیچے یہ الفاظ درج تھے:
Brief, accurate answers to hundreds of questions children ask about.
میں نے اس کے مختلف حصے پڑھے۔ کتاب اپنے نام کے عین مطابق تھی۔ اردو میں میں نے اس طرح کی کئی کتا بیں دیکھی ہیں۔ مگر ان میں معلومات کم اور ادبیت زیادہ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ معلومات متعین اور محدّد انداز میں نہیں ہوتیں۔ مذکورہ کتاب کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ انتہائی سادہ اور انتہائی محدّد اسلوب میں لکھی گئی تھی۔ البتہ انواع ِحیات سے متعلق معلومات میں جگہ جگہ نظریۂ ارتقاء شامل تھا جس سے مجھے اتفاق نہیں۔ میں ارتقاء کو محض ایک مفروضہ سمجھتا ہوں نہ کہ کوئی واقعی حقیقت۔
ایک رپورٹ عالمی اقتصادیات کے بارے میں دیکھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ۱۹۸۶ میں امریکہ کے اوپر قومی قرضہ ۲۱۱۲ ملین ڈالر تھا۔ اس لحاظ سے امریکہ وہ ملک ہے جس کے اوپرسب سے زیادہ قومی قرضہ ہے:
The largest national debt is that of the US
میں نے امریکہ کے ایک معاشی عالم سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ ہمارے قرضہ کی وہ نوعیت نہیں ہے جو تیسری دنیا کے قرضہ کی ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے ملک اقتصادی مدد کے طور پر قرض لیتے ہیں۔ اور کئی ملکوں کا یہ حال ہے کہ وہ اس کی قسط بھی ادا نہیں کر سکتے۔ چنانچہ اس کی قسط کی ادائگی کے لیے دوبارہ قرض لینا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ جو قرض لیتا ہے وہ پیداواری مقصد کے لیے لیتا ہے، جیسے ایک کمپنی بینک سے قرض لے کر اپنا کاروبار بڑھاتی ہے۔ چنانچہ امریکہ اگر سب سے بڑا مقروض ملک ہے تو اس سے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ قومی پیدا وار (National product) کے معاملہ میں وہ تمام دنیا کے ملکوں سے بڑھا ہوا ہے:
The country with the largest GNP is the US, reaching nearly $ 4,000 billion in 1986.
لینا اور دینا اس دنیا میں نسبتی مقدار کا نام ہے۔ اگر آپ دنیا سے زیادہ لے رہے ہوں مگر دینے کے معاملہ میں اس سے بھی زیادہ دے رہے ہوں تو آپ لوگوں کی نظر میں دینے والے ہی سمجھے جائیں گے۔
مشہور کتاب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈس (Guinness Book of World Records)کا نام میں نے سنا تھا مگر اس کو دیکھایا پڑھا نہیں تھا۔ وہ کتاب مجھ کو یہاں ملی۔ اس کا کافی حصہ دیکھا۔ میرے سامنے اس کا ۱۹۸۷ کا اڈیشن ہے۔ انڈکس وغیرہ کو شامل کرتے ہوئے اس کے تقریباً ۷۰۰ صفحات ہیں۔ یہ کتاب کئی آدمیوں نے مل کر تیار کی ہے۔
دیباچہ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب پہلی بار امریکہ سے ۱۹۵۶ میں شائع ہوئی۔ چھپتے ہی وہ بہت زیادہ بکنے والی کتابوں (best-sellers) میں نمبر ایک کتاب بن گئی۔ ۲۵ زبانوں میں وہ ۱۹۸۷ تک ۲۲۰ بار چھپ چکی تھی۔ جن زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں، ان میں عربی اور ہندی زبانیں بھی شامل ہیں۔
اس کتاب میں ہرقسم کی غیر معمولی چیزوں کا ذکر ہے۔ مثلاً سب سے لمبا آدمی، سب سے اونچا پہاڑ، سب سے پرانا درخت، سب سے لمبا یا سب سے چھوٹا دریا، سب سے بڑا آئس برگ وغیرہ۔ یہ کتاب گویا ریکارڈ توڑ چیزوں (Record breakers) کی قاموس ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کتاب چھپی تو وہ خود ریکارڈ توڑنے کی ایک مثال ہوگئی۔ ۱۹۸۶ تک عالمی سطح پر ۵۳ ملین کتا بیں فروخت ہو چکی تھیں۔ یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان کو ایک کے اوپر ایک رکھا جائے تو ان سے ۱۱۸ ڈھیر ایسے بن سکتے ہیں جن میں سے ہر ایک کی اونچائی ماونٹ ایورسٹ کے برابر ہو۔ جبکہ ماونٹ ساڑھے پانچ میل اونچا ہے۔
کتاب کے الفاظ میں اچنبھے میں ڈالنے والے واقعات (amazing facts) کے اس مجموعہ کو اتنی زیادہ مقبولیت کیوں حاصل ہوئی۔ اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ انسان کی فطرت میں پیدائشی طور پر سب سے زیادہ طاقتور احساس یہی اچنبھا (amazement) اور استعجاب کا احساس ہے۔ آدمی کے اندر بے پناہ گہرائی کے ساتھ یہ جذبہ چھپا ہوا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو دیکھے جو غیر معمولی حد تک عظیم ہو تو اس کی عظمت کے احساس سے سرشار ہو جائے۔ اسی احساس کا ایک نتیجہ فطرت پرستی اور ہیرو پرستی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
انسان کے اندریہ شعور اس لیے رکھا گیا تھا کہ وہ خدائے ذوالجلال کو پہچانے اوراس کے آگے اپنی عبدیت کا اظہار کرے۔ یہی "الہٰ" کا مطلب ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے احساس کو دوسری تمام سمتوں سے ہٹا کر ایک خدا کی طرف موڑلیا۔ شرک کی تمام صورتیں در اصل اسی احساس کا غلط استعمال ہیں۔
ایک صاحب یہاں کے "اردو داں مسلمانوں "کی دعوت پر امریکہ آئے تھے۔ یہاں انھوں نے اپنے ہم وطنوں کے درمیان تقریریں کیں۔ ان کا ایک کیسٹ سننے کا اتفاق ہوا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ دعوتی کام، جس کو یہاں دعوہ ورک (Dawah work) کہا جاتا ہے۔ وہی محدود معنوں میں ایک اچھا کام ہو سکتا ہے۔ مگر یہی اصل اسلامی کام نہیں۔ اصل کام ہے نظام کو بدلنا۔ ہم ایک مکمل انقلاب لانے کے علمبردار ہیں۔ اور مکمل انقلاب جہاد وقتال کے بغیر کبھی نہیں آتا۔ ہمار ا نشا نہ یہ ہے کہ انقلابی جدوجہد کے ذریعہ امریکہ میں اور اسی طرح سارے عالم میں مکمل اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔
اس قسم کی باتوں کا تعلق اسلام سے تو کیا ہو گا۔ ان کا عقل سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس کو ایک قسم کی سیاسی شاعری کہا جا سکتا ہے۔ مصر اور پاکستان کے اسلام پسندوں نے اسی قسم کی سیاسی شاعری میں پچاس قیمتی سال ضائع کر دیے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مسلمانوں کی پیرا نوئک (paranoiac) نفسیات ہے جس کی بنا پر ایسے مقرروں کو کچھ سامعین مل جاتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو اس قسم کے لوگوں کو حقائق کی اس دنیا میں کوئی سننے والا اورپڑھنے والا نہ ملے۔
قرآن وسنت کے مطابق اسلام کا اصل کام دعوتی کام ہے۔ دعوتی کام سے مراد کو ئی سطحی کام نہیں، اس سے مراد افراد کے اندر ذہنی انقلاب لانا ہے۔ اسلام کا اصل مقصد یہ ہے لوگ اللہ کی معرفت حاصل کریں۔ لوگ آخرت کی حقیقت کو محسوس کرنے والے بن جائیں۔ لوگ اسلام کی صداقت پر یقین کرنے والے بن جائیں۔ یہی جڑ کا کام ہے۔ جو لوگ اس معنی میں اسلام کو پالیں، وہ آخرت میں خدا کی ابدی رحمتوں کے مستحق ٹھہریں گے۔ اور اگر اس قسم کے انسانوں کی بڑی تعداد کسی مقام پر پیدا ہو جائے تو اس کے بعد ان کے درمیان وہ چیز بھی وجود میں آجاتی ہے جس کو اسلامی حکومت کہا جاتا ہے۔
یہاں یونیورسٹیوں اور لائبریریوں وغیرہ کے اندر پارکنگ لاٹ ہیں۔ اس کے مطابق، ہر طبقہ کا آدمی اپنی اپنی مختص کی ہوئی لاٹ میں گاڑی کھڑی کرتا ہے۔ لاٹ کے گیٹ کمپیوٹرائزڈ ہوتے ہیں۔ ان کے اندر مطلوبہ کا ر ڈ ڈالنے ہی سے وہ دروازے کھلتے ہیں۔ ایک لائبر یری میں ایک جگہ جنگلہ سا نظر آیا۔ یہاں سائیکل کھڑے کرنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ غالبا ًدس سائیکلوں کی جگہ ہوگی، مگر صرف دو سائیکلیں وہاں کھڑی ہوئی تھیں۔ البتہ وہاں لکھے ہوئے یہ الفاظ بہت قابلِ توجہ تھے ––––اس کو تالا لگاؤ یا اس کے کھونے کا انتظار کرو:
Lock it or loose it.
میں نے سوچا کہ یہ مسئلہ صرف سائیکل کا نہیں بلکہ خود "سائیکل سوار " کا بھی ہے۔ آدمی کو خود بھی یہی کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ پر تالا لگائے، اپنے آپ کو حد سے باہر جانے سے روکے۔ ورنہ وہ اپنے آپ کو کھو دے گا۔ بے تالے کی سائیکل کو چور لے جاتا ہے اور بے تالے کے آدمی کو شیطان -
ایک عرب سے ملاقات ہوئی۔ وہ حزب التحریر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حزب ۱۹۵۳ ء میں عرب میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے موسس الشیخ نبھانی ہیں۔ مگر عرب ملکوں میں ہر جگہ ان پر پابندی ہے۔ اس لیے یہ لوگ آجکل امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انھوں نے ۱۱۲ صفحات پرمشتمل ایک کتاب دی۔ اس عربی کتاب (حزب التحریر) میں اس تحریک کا تعارف درج تھا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کافر حکومتوں کے غلبہ و نفوذ (سيطرة الدول الكافرة ونفوذها) کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانےمیں "خلافت "کا ادارہ قائم نہیں ہے۔ ان حضرات کے نزدیک سب سے پہلا اسلامی کام یہ ہے کہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
اس میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو "اصلاح افراد " کی بات کرتے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مجتمع کی اصلاح افراد کی اصلاح سے نہیں ہوتی بلکہ مجتمع کی اصلاح اس کے نظام کی اصلاح سے ہوتی ہے (إن إصلاح المجتمع لا يكون بإصلاح أفراده بل إن إصلاح المجتمع إنما يكون بإصلاح أنظمته)
یہ مارکسی طرز فکر کو اسلام میں داخل کر نا ہے جس کو قرآن میں مضاھاۃ کہا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام انقلابی مفکرین اسی مضاھاۃ کا شکار ہوئے ہیں۔ مگر اسلام کے نزدیک اصل اہمیت فرد کی ہے۔ فرد کے اندر توحید اور آخرت کا شعور پیدا کرنا، یہی اصل اسلامی کام ہے۔ بقیہ تمام چیزوں کی حیثیت ثانوی ہے۔
ورلڈ کونسل آف چرچزکے نام سے جنیوا میں ایک ادارہ قائم ہے۔ فروری ۱۹۹۱ میں اس کا ایک بڑا اجلاس آسٹریلیا میں ہونے والا ہے۔ اس میں ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی کو خصوصی دعوت نامہ ملا ہے۔ میں نے دعوت نامہ کو دیکھا۔ اس میں اس کی ایک تھیم یہ بتائی گئی تھی جو میرے نزدیک نہایت درست تھی:
The creation and perception of enemy images are among the ideological and psychological roots of militarism.
امریکہ کے ایک بہت بڑے تاجر ہیں۔ ان کا نام Alfred Armand Montapert (مونٹا پرٹ) ہے۔ انھوں نے لاس اینجلیز میں ۱۲ سال کی عمر میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ مگر ان کی حوصلہ مند طبیعت زندگی میں اوسط کامیابی (average success) پر راضی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے تعلیم شروع کر کے الکٹریکل انجنئیر کی ڈگری لی۔ اس کے بعد وہ صنعت میں داخل ہوئے اور نصف درجن سے زیادہ بڑی کمپنیاں بنائیں۔
ہر آدمی کے اندر اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کرنے کا بے پناہ جذبہ چھپا ہوا ہے۔ مگر خوش قسمت وہ ہے جس کو اللہ یہ توفیق دے کہ وہ دنیا میں"اوسط کامیابی "پر راضی ہو کر اپنے اعلیٰ
DISTILLED WISDOM
The universe does not make sense without God. -E. Stanley Jones
Religion brings man the answer which his heart desires. -Alexis Carrel
Produce great men, the rest follows. -Walt Whitman
Success is ninety-nine per cent mental attitude. -Wilferd Peterson
Who knows the mind has the key to all things else. -A.B. Alcott
Expedients are for the hour; principles for the ages. -H.W. Beecher
A problem well stated is a problem half solved. -Charles Kettering
The thousand-mile journey starts with one step. - Confucius
Buy not what you want, but what you need. -Cato
A clear statement is the strongest argument. -English proverb
Keep cool; anger is not argument. -Daniel Webster
When all else is lost the future still remains. -Jean-Paul Sartre
Life begins when a person first realizes how soon it ends. -A.A.M.
No gain without pains. -Franklin
Gold is tried in fire, friendship in need. -Danish saying
Fools rush in where angels fear to tread. -Alexander Pope
Avoid the evil and it will avoid thee. -Gaelic Proverb
One example is worth a thousand arguments. -William Gladstone
If you would lift me you must be on higher ground. -Emerson
He that is good for making excuses is seldom good for anything else. -Franklin
Silence is one of the great arts of conversation. -Cicero
All your strength is in union. All your danger is in discord. -Longfellow
A man who is master of patience is master of everything else. -Lamartine
There is a woman at the beginning of all great things. -Edward Bok
Happiness lies in a constructive job well done. -Hubbard
Joy is not in things, it is in us. -Charles Wagner
Great haste makes great waste. -Franklin
There is no education like adversity. -Councillor
Many receive advice, only the wise profit by it. -Publilius Syrus
Your advertising should be written to convince your customers, not yourself. -Roy Smith
When anger rises, think of the consequences. -Confucius
Successful men usually snatch success from seeming failure. -A.P. Goutlay
My way is to begin with the beginning. -Lord Byron
It is the surmounting of difficulties that makes heroes. -Kossuth
With ordinary talent, and extraordinary perseverance, all things are attainable. -Thomas Buxton
We win by tenderness; we conquer by forgiveness. -F.W. Robertson
Life cannot go on without much forgetting. -Balzac
Many of the greatest men have owed their success to industry rather than to cleverness. -A.A.M.
Go outdoors and get rid of nerves. -Dr. Frank Crane
The only period of time you can ever act upon is right now. -Dr. Paul Parker
One cannot be envious and happy at the same time. -Henry Greber
Little effort, little result; big effort, big result. -A.A.M.
Nature works on a method of all for each and each for all. -Emerson
Violence is the weapon of the weak, non-violence that of the strong -Gandhi
To speak as the common people do, to think as wise men do. - Roger Ascham He is safe from danger who is on guard even when safe. -Publiliuu Sqgux
کامیابی کے حوصلوں کو آخرت کی طرف موڑ دے۔ جو شخص دنیا میں اعلیٰ کا میابی حاصل کرنا چا ہے وہ آخرت کے معاملے میں تہی دست ہو کر رہ جائے گا۔
مسٹر مونٹا پرٹ کی عادت تھی کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کے حکمت و دانش کے اقوال نوٹ کرتے رہتے تھے۔ اس طرح ان کے پاس بہت بڑا ذخیرہ اکھٹا ہوگیا۔ ان کو انھوں نے ساڑھے تین سو صفحات کی ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ اس کا نام (Distilled Wisdom) ڈسٹلڈ وزڈم ہے۔ اس میں ایک ہزار آدمیوں کے کئی ہزار اقوال درج ہیں۔ میرے سامنے اس کا پانچواں اڈیشن ہے جو نیو جرسی سے شائع ہوا ہے۔ یہ کتاب مجھے پسند آئی۔ اس کے کچھ اقوال بطور نمونہ الگ صفحہ پر درج کیے جاتے ہیں۔
امریکہ میں پانچویں کلاس میں پڑھائی جانے والی ایک کتاب "سوشل اسٹڈیز "کے بارے میں دیکھی۔ کتاب کا نام اور مصنف کا نام یہ تھا:
The Eastern Hemisphere, Yesterday and Today
by Kenneth S. Cooper, Silver Burdett & Ginn, 1988.
۵۵۰ صفحات پر چھپی ہوئی اس خوب صورت کتاب کا ایک باب یہ ہے –––– محمّد،عربوں کے لیڈر:
Mohammad: Leader of the Arabs
اس میں بتایا گیا ہے کہ ۱۲ سال کی عمر میں محمد ایک تجارتی قافلے کے ساتھ "کیمل ڈرائیور" کی حیثیت سے ان مقامات پر گئے جہاں یہودی اورمسیحی آباد تھے۔ ان سے انھوں نے ان کے مذہب کی باتوں کو سیکھا۔ ایک عجیب و غریب قسم کی سواری کے اوپر ایک عجیب و غریب قسم کے آدمی کو ایک تصویر میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:
Here an artist shows Mohammad on a journey through the heavens to see God. Do you think the artist saw this happen? (p.339)
ایک تصویر میں ایک باریش آدمی خلافت کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ بہت سے آدمی ننگی تلواریں اپنے ہاتھ میں اٹھائے اس کی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے نیچے لکھا ہوا ہے:
Abu Bakr is being hailed as Islam's first Caliph. How is the crowd showing him support? (p. 342)
ایک جگہ قرآن کے ایک صفحہ کی تصویر ہے۔ یہ صفحہ قدیم طرز کے معمولی خط میں لکھا ہوا ہے۔ اس تصویر کے نیچے لکھا ہوا ہے:
These pages from the Koran are a sample of Arabic writing. Why might they be described as a work of art? (p. 352)
اس طرح کی کئی غیر نمائندہ تصویریں دینے کے بعد آخر میں ایک اور تصویر ہے۔ اس میں ایک عرب اسکالر اپنا روایتی عربی لباس پہنے ہوئے بیٹھا ہے۔ اس کے سامنے جدید طرز کی مغرب کی بنی ہوئی ایک خورد بین رکھی ہوئی ہے۔ عرب اس مغربی خورد بین پر جھکا ہوا کسی چیز کا مشاهده کر رہا ہے۔ اس کے نیچے لکھا ہوا ہے:
The Arab researcher is working hard to find ways to cure diseases. What tool is he using? (p. 354)
اس طرح بچوں کی اس کتاب میں نہایت منظم طور پر اسلام کو حقیر بنا کر دکھایا گیا تھا۔ اور اس کے مقابلےمیں مغرب کی تصویر نہایت عظیم بنا کر پیش کی گئی تھی۔ کیلی فورنیا میں مقیم ایک ہندستانی مسلمان کا خط مجھے دہلی میں ملا تھا۔ انھوں نے الرسالہ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ ہندستانی مسلمانوں کو بزدلی سکھا رہے ہیں۔ آپ کے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے مسلمان آنکھیں بند کر کے تعلیم اور تجارت جیسی چیزوں میں لگ جائیں۔ اس طرح تو مسلمان اپنی شناخت بھی کھو دیں گے۔
ان مسلمان صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے مذکورہ کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی باتوں پر ہندستان میں مسلمان لڑیں تو اس کو آپ جہاد بتاتے ہیں اور خود اس قسم کی بے شمار باتوں کو برداشت کر کے امریکہ میں اطمینان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ بتائیے کہ آپ کا یہ رویہ، آپ کے معیار کے مطابق، بزدلی ہے یا بے راہ روی۔ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
مکہ کے انگریزی پرچہ مسلم ورلڈ لیگ جرنل (جولائی- اگست ۱۹۹۰) نے امام وارث دین محمد کا ایک انٹرویو چھا پا تھا۔ اس کا ایک سوال وجواب یہ تھا:
Q. What are the deficiencies of American Muslims today.
A. Our main deficiency in America is the need for materials. Other religions in America mainly depend on their literature. So our main deficiency is that we need much more excellent literature for doing an excellent job of Dawah in the United States. (47-48)
پوچھا گیا کہ دعوت کے کام کے سلسلے میں آج امریکی مسلمانوں کی بنیادی کمی کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ امریکہ میں ہماری بنیادی کمی سامان کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں دوسرے مذاہب اپنی تبلیغ کے لیے زیادہ تر لٹریچر پر انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے ہماری بنیاد ی کمی یہ ہے کہ ہم زیادہ اعلیٰ قسم کے دعوتی لٹریچر کے ضرورت مند ہیں۔ تاکہ ہم امریکہ میں زیادہ اعلیٰ پیمانہ پر دعوتی کام کرسکیں۔
یہاں یہ سوال ہے کہ مسلمانوں میں ہزاروں کی تعداد میں اعلی ٰتعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک انگریزی میں اعلیٰ قسم کی دعوتی کتا بیں تیار نہ ہو سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے تمام علماء اور دانش ور نفرتِ مغرب یا نفرتِ امریکہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی حالت میں ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اہل ِمغرب کے لیے اعلیٰ دعوتی لٹریچر تیار کرسکیں۔ دعوتی کلام کے لیے محبت بھرا دل درکار ہے نہ کہ نفرت بھر ادل۔
امریکہ کے سفر میں میری ملاقات ایک اعلی ٰتعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ وہ دین سے بھی واقف تھے اور اسی کے ساتھ انگریزی کی اچھی صلاحیت رکھتے تھے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے امریکہ کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ "امریکہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے"۔یہ میرے نزدیک سراسر غیر داعیانہ مزاج ہے، اور غیر داعیانہ مزاج کے ساتھ کبھی داعیانہ لٹریچرتیار نہیں کیا جاسکتا۔
امریکہ کے زمانۂ قیام میں عام ملاقاتوں کے علاوہ متعدد بار اجتماعی خطاب کا موقع بلا۔ یہ خطابات زیادہ تر تذکیری نوعیت کے تھے۔ میں نے ان خطابات میں آخرت پسندانہ مزاج، اتحاد اور دعوت کی اہمیت پر زور دیا۔ ان خطابات کا ایک نقشہ اگلے صفحہ پر درج کیا جاتا ہے۔
امریکہ کے زمانۂ قیام میں
۲۱ نومبر ۱۹۹۰ نماز عشاء کے بعد اسلامک سوسائٹی آرنج کا ونٹی کی مسجد میں تقریر
۲۲ نومبر نماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درسِ قرآن
۲۳ نومبر نماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درسِ قرآن
۲۴ نومبر نماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درسِ قرآن
۲۴ نومبر شام کو ایڈیسن کمیونیٹی سنٹرمیں مردوں اور عورتوں کے اجتماع سے خطاب
۲۵ نومبر مسلم فیملی کا نفرنس، لاس اینجلیز میں کلچرل کنورژن کا مسئلہ اور اس کا حل پر تقریر
۲۶ نومبر نماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درسِ قرآن
۲۶ نومبر نماز عشاء کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں تقریر، عنوان: "صحابہ اسپرٹ"
۲۷ نومبر نماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درسِ قرآن "مومن کا کردار"
۲۹ نومبر ماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درسِ حدیث
۳۰ نومبر شام کو صغیر اسلم صاحب کی رہائش گاہ پر اجتماعی کھانا (Potluck) کے موقع پرتقریر
یکم دسمبر نماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درسِ حدیث
یکم دسمبر شام کو صفی قریشی صاحب کی رہائش گاہ پر ایک اجتماع سے خطاب
۲ دسمبر نماز فجر کے بعد اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں درس ِحدیث
۲ دسمبر دوپہر کو سین گیبریل کے اسلامک سنٹر میں مردوں اور عورتوں کے اجتماع میں تقریر
۲ دسمبر اسلامک سوسائٹی آرنج کاؤنٹی کے ہال میں مسلمانوں کے موجودہ مسائل پر تقریر
۳ دسمبر اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں نمازِ فجر کے بعد درس ِحدیث
۳ دسمبر دوپہر کو سین گیبریل کے اسلامک سنٹر میں تعلیم یا فتہ خواتین کے اجتماع سے خطاب
۴دسمبر اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں نماز فجر کے بعد درسِ حدیث
۴ دسمبر اسلامک انفارمیشن سروس، لاس اینجلیز میں ویڈیو پر انٹرویو
۵ دسمبر اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں نماز فجر کے بعد درس ِحدیث
۵ دسمبر صغیر اسلم صاحب کی رہائش گاہ پر خواتین کے اجتماع میں تقریر" عورت کا رول اسلام میں"
۶ دسمبر اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں نماز فجر کے بعد درسِ حدیث
۶ دسمبر شام کو اسلامک سوسائٹی کے ہال میں––– "قیام امریکہ کے تاثرات"