ایک آیت
قرآن میں مختلف قسم کے گناہوں کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ جو شخص ان گناہوں میں مبتلا ہوگا اس کے لیےخدا کے یہاں سخت عذاب اور رسوائی ہے۔ اس ذیل میں ارشاد ہوا ہے:
إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلٗا صَٰلِحٗا فَأُوْلَٰٓئِكَ يُبَدِّلُ ٱللَّهُ سَيِّـَٔاتِهِمۡ حَسَنَٰتٖۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورٗا رَّحِيمٗا ٧٠ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَٰلِحٗا فَإِنَّهُۥ يَتُوبُ إِلَى ٱللَّهِ مَتَابٗا ﴿الفرقان: ۷۰- ۷۱﴾
مگر جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور جو شخص توبہ کرے اور نیک کام کرے تو وہ در حقیقت اللہ کی طرف رجوع کر رہا ہے۔
دین میں کسی عمل کو جانچنے کا معیار اس کا ظاہری پہلو نہیں ہے بلکہ اس کا نفسیاتی نتیجہ ہے۔ ہر دینی عمل کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے۔ مگر کسی عمل سے اللہ تعالی کو اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ اس عمل کے دوران آدمی کے اندر کس قسم کا احساس جاگا۔ وہی عبادت عبادت ہے جس میں مشغول ہو کر آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا ہو۔ اگر عبادت کرکے بڑائی کی نفسیات پیدا ہو جائے تو ایسی عبادت انعام کے بجائے مواخذہ کا سبب بن جائے گی۔
انسان فرشتہ نہیں ہے، انسان کے اندر نفس کی کمزوریاں موجود ہیں۔ اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ انسان بار بار اس دنیا میں پھسل جاتا ہے۔ اس سے بار بار غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اب اگر انسان قصدا ً کوئی گناہ کرے اور گناہ کر کے اس پر قائم رہے تو وہ اللہ کی نظر میں سخت مجرم ہے۔ وہ قیامت کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔ دوسرا انسان وہ ہے جس سے طبعی کمزوری کی بنا پر غلطی ہو جائے۔ مگر غلطی کے بعد وہ فوراً متنبہ ہو۔ اس کے اندر شرمندگی اور تو بہ کا احساس جاگے۔ وہ خدا سے معافی مانگے اور آئندہ کے لیے غلطی نہ کرنے کا عزم کرے تو ایسا آدمی اللہ کی نظر میں قابلِ انعام بن جاتا ہے۔
اس کی غلطی اگرچہ ابتد اءً غلطی تھی۔ مگر نتیجہ کے اعتبار سے وہ تو بہ اور انابت میں ڈھل گئی۔ اس نے آدمی کے اندر ایمان اور عملِ صالح کا نیا احساس جگا دیا۔ یہی وہ برائی ہے جو بظا ہر برائی ہونے کے باوجود خدا کے یہاں نیکی کے خانہ میں لکھ دی جاتی ہے کیونکہ وہ آدمی کو ایک نیکی تک پہنچانے کا سبب بنی۔