فرق کو جانیے

حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ تم تجسس نہ کرو (ولا تجسّسوا) دوسری حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ تم علم کی طلب کرو خواہ وہ چین میں ہو۔ (اطلبوا العلم ولو كان بالصين)تجسس اور طلبِ علم بظا ہر ملتی جلتی چیزیں ہیں۔ کیوں کہ دونوں میں اصل مقصود معلومات جمع کرنا ہوتا ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلبِ علم کو جائز اور مطلوب بتایا اورتجسس کو ناجائز اور غیر مطلوب قرار دیا۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کا مقصد کسی آدمی کے شخصی راز کو جاننا ہوتا ہے۔ تجسس کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ دوسرے آدمی کے ذاتی عیب کو معلوم کرے۔ اس قسم کا تجسس صرف ایک برائی ہے۔ وہ نفرت، بدگمانی، کشیدگی اور عداوت لے آتی ہے۔ اس سے خاندانی اور سماجی زندگی میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ وہ اصلاح کا سبب نہیں بلکہ بگاڑ کا سبب ہے۔

 طلب ِعلم کا معاملہ اس سے سراسر مختلف ہے۔ علم کی طلب معرفت کی طلب ہے۔ وہ حقائق ِعالم کو جاننے کی کوشش ہے۔ علم کے اضافے سے آدمی کے ذہن میں وسعت آتی ہے۔ اس کی روح کو معرفت کی غذا ملتی ہے۔ وہ زندگی کے معاملے میں زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ علم آدمی کو اخلاقی اور انسانی حیثیت سے اعلیٰ مرتبہ پر لے جاتا ہے۔

 اسی طرح بہت سی چیزیں بظاہر ایک سی نظر آتی ہیں۔ مگر ان میں زبر دست نوعی فرق ہوتا ہے۔ دنیا میں صحیح راستہ پر قائم رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانے۔ وہ چیزوں کو صرف ظاہر کے اعتبار سے نہ دیکھے بلکہ ان کی اندرونی حقیقت کے اعتبار سے انھیں دیکھ سکے۔

" فرق "کو جاننے کا تعلق پوری زندگی سےہے۔ ہر چیز میں اس حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی ضرورت دین کے معاملے میں بھی ہے اور دنیا کے معاملےمیں بھی۔ مثلاً زندگی میں کبھی چپ رہنا ضروری ہوتا ہے اور بھی بولنا ضروری بن جاتا ہے۔ کبھی چلنا ضروری ہوتا ہے اور کبھی ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے گھر کے اندر بیٹھے رہے۔کبھی معاملے کو گھٹانا مقصود ہوتا ہے اور کبھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کو بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اس فرق کو جانیں وہی دانش مند ہیں۔ اور جو لوگ اس فرق کو نہ جانیں وہ حیوان کی مانند ہیں، خواہ بظاہر وہ خوش پوش انسان کے روپ میں دکھائی دے رہے ہوں۔

فساد کا حل

جلوس کی مخالفت کرنے سے فساد ہوتا ہے اور جلوس سے اعراض کر نا فساد کو روکتا ہے۔ فساد کو ختم کرنے کی یہی واحد تدبیر ہے۔ ہزاروں مثالیں اس اصول کو صحیح ثابت کرتی ہیں۔

 اس سلسلے میں ایک نصیحت آموز مثال وہ ہے جو مدراس میں پیش آئی۔ مدراس میں ۳ستمبر۱۹۹۰ کو ونا یک چتر تھی (Vinayaka chaturthi) کا جلوس ہندوؤں نے نکالا۔ یہ جلوس چلتا ہوا ٹریپلی کین (Triplicane) کی سڑک پر پہنچا۔ یہاں مسلمانوں کی ایک مسجد ہے۔ مسلمانوں نے کچھ پر جوش لیڈروں کے زیرِ اثر جلوس پر روک ٹوک کی۔ انھوں نے کہا کہ تم لوگ اپنی روٹ بدلو۔ ہماری مسجدکے سامنے سے جلوس مت نکالو۔ مگر جلوس والے نہ مانے۔

اس پر تناؤ بڑھا۔ دونوں طرف سے لوگ مشتعل ہوگئے۔ فرقہ وارانہ ٹکراؤ کی نوبت آگئی۔ یہاں تک کہ پولیس نے گولی چلائی، دو مسلمان مارے گئے۔ بہت سے زخمی ہوئے مسلمانوں کی کئی دکانوں اور مکانوں کو نقصان پہنچا۔ اس کے نتیجے میں دونوں فرقوں کے درمیان نفرت اور کشیدگی کی جو فضا پیداہوئی وہ اس کے علاوہ ہے۔

اس تلخ تجربےکے بعد مسلمان اگلے سال لیڈروں کی باتوں میں نہیں آئے۔ انھوں نے اس معاملے میں اعراض کی پالیسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سال بھی حسبِ معمول ہندوؤں نے ۲۲ ستمبر ۱۹۹۱ کو اپنا جلوس نکالا۔ یہ جلوس اشتعال انگیز نعرے لگاتا ہو ا ٹریپلی کین پہنچا۔ مسجد کے سامنے وہی حالات دوبارہ زیادہ شدت کے ساتھ پیدا ہوئے جو پچھلے سال پیدا ہوئے تھے۔ مگر مسلمانوں نے اپنے فیصلے کے مطابق مکمل اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس مسلمانوں کا بدل بن گئی۔ کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا۔ جلوس سڑک سے گزرگیا اور مسلمانوں کا جان و مال پوری طرح محفوظ رہا۔

 اس واقعہ پر مدراس کے اخبار، دی ہندو نے اپنے شمارہ ۲۶ ستمبر ۱۹۹۱ میں مسلمانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اس موقع پر اشتعال انگیزی کے باوجود زبر دست (great restraint) کا مظاہرہ کیا۔ اور اس بنا پر اس بار کوئی فساد نہیں ہوا۔

 یہی فساد کے مسئلہ کا آزمودہ حل ہے، اور مسلمانوں کو ہر جگہ اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom