استعداد کا فرق

آٹھویں صدی میں مسلمان صنعتی اور فوجی اعتبار سے مغربی قوموں سے برتر تھے۔ اس لیے وہ مغرب کے اوپر غالب آگئے۔ موجودہ زمانے میں مغرب نے تمام فکری اور عملی شعبوں میں برتری حاصل کر لی، اس لیے انھوں نے مسلم ملکوں کے اوپر غلبہ حاصل کر لیا۔ یہ تبدیلی عین فطری قانون کے تحت ہوئی۔ کیوں کہ یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہی ہو گا کہ کمزور مغلوب ہو جائے گا اور جو طاقت ور ہے وہ دوسروں کے اوپر غلبہ حاصل کرلے گا۔

اس تبدیلی کے بعد ضرورت تھی کہ مسلمانوں کو نئے زمانے کے اعتبار سے باشعور اور طاقت ور بنایا جائے مگر موجودہ زمانے کے مسلم لیڈروں سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے تبدیلیٔ قیادت کے اس معاملے کو فطری قانون کا معاملہ نہیں سمجھا بلکہ اس کو مغربی سازش کا معاملہ سمجھ لیا۔ اسی غلط فہمی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارے تمام لکھنے اور بولنے والے سو سال سے بھی زیادہ مدت سے شکایت اور احتجاج میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ مغربی قوموں کی سازشوں کا انکشاف کرنے میں مصروف ہیں۔ حالانکہ اس قسم کی لفظی ورزش کا کوئی فائدہ نہیں۔

اصل کام یہ تھاکہ مسلمانوں کو از سر نو تیاری کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انھیں عصری تبدیلیوں سے واقف کرایا جائے۔ ان کو ابھارا جائے کہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو مستعد اور مستحکم بنائیں۔ مگر تمام بہترین وقت لفظی احتجاج میں گزرگیا اور تیاری اور استحکام کے میدان میں کوئی بھی حقیقی کام نہ ہو سکا۔

ہمارے لکھنے اور بولنے والے طبقے کی غلط رہنمائی نے موجودہ زمانے کے بیشتر مسلمانوں کے ذہن کو بگاڑ دیا ہے۔ وہ معاملات کو صرف شکایت اور سازش کے رخ سے دیکھنا جانتے ہیں۔ وہ فطری حقائق کی روشنی میں معاملات کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

اس ذہنی بگاڑ کی بنا پر انھیں کام صرف یہ نظر آتا ہے کہ اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف ایسے الفاظ کی دھوم مچاتے رہیں جن کا اتنا فائدہ بھی نہیں کہ وہ دشمن کے کانوں تک پہنچیں اور اس کی رات کی نیند حرام کر دیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom