نئے خون کی ضرورت
سید جمال الدین افغانی (۱۸۹۷ - ۱۸۳۸) مسلمانوں کی اصلاح سے مایوس تھے۔ امیر شکیب ارسلان نے اس بارے میں ان کے جو خیالات نقل کیے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے:
قد فسدت أخلاق المسلمين إلى أنه لا أمل بأن يصحوا إلا بأن ينشأو اخلقا جديداً وجيلا مستأنفا فحبذا لولم يبق منهم إلاكل من هو دون الثانية عشرة من العمر، فعند ذالك يتلقون تربية جديدة تسير بهم في طريق السلامة (حاضر العالم الاسلامی (۱۹۳۳) صفحہ ۲۹۰)
مسلمانوں کے اخلاق اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ امید نہیں کہ ان کی اصلاح ہو۔ الا یہ کہ ان میں نئی نسل پیدا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بارہ سال کی عمر کے سوا ان کے سارے لوگ ختم ہو جائیں۔ پھر وہ نئی تربیت قبول کریں گے جو انہیں سلامتی کے طریقہ تک پہنچائے۔
۲۳ دسمبر ۱۹۷۳ کو دہلی (جمعیتہ بلڈنگ)میں میری ملاقات مولانا سید منت اللہ رحمانی (امیر ِشریعت بہار) سے ہوئی۔ ان سے میں نے بعض مصلحین کے مذکورہ بالا تاثر ات کا ذکر کیا۔ اس کے جواب میں انھوں نے ایک روایت بیان کی۔ یہ روایت میں نے اسی وقت ایک کا غذپر خود ان کے اپنے قلم سے لکھوائی تھی۔ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ کاغذ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ اس میں مولا نارحمانی نے لکھا تھا:
"مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب (۱۹۴۰ - ۱۸۸۳) نے مجھ سے کہا کہ ایک دفعہ مولانامحمد علی مونگیری (۱۹۲۷) کی خدمت میں عرض کیا کہ خدا بہتر جانتا ہے کہ جہاں جاتا ہوں اخلاص کے ساتھ جاتاہوں، لیکن جب تک رہتا ہوں، لوگ دین کی طرف مائل رہتے ہیں، اور وہاں سے ہٹنے کے بعد لوگ بھی دین کو چھوڑ دیتے ہیں ––––اخلاص کا تو اثر ہونا چاہیے۔ حضرت مونگیری نے جواب دیا کہ" اللہ تعالیٰ ہر عصراور زمانے میں اپنی کسی نہ کسی صفت کے ساتھ جلوہ گر رہتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خیر القرون میں اپنی صفت "الہادی" کے ساتھ جلوہ گر تھا، اور اس عہد میں اپنی صفت " المضل" کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اس لیے نہ ہدایت دیر پا ہوتی ہے اور نہ اخلاص موثر ! جس کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کا منصب ہدایت تھا، وہ گمراہ ہو رہے ہیں۔"
ڈاکٹر اقبال (۱۹۳۸ - ۱۸۷۷) کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو صداقت اور عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھائیں اور انھیں دوبارہ امامتِ دنیا کے لیے تیار کریں۔ انھوں نے مسلمانوں کو جگانے کے لیے اپنے اشعار کو رجز کے طور پر استعمال کیا۔وہ اپنی ان کوششوں کے نتائج کے بارے میں بہت پر امید تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ِویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اقبال نے اپنی پوری زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی۔ مگران کی "بانگ درا" اور "ضرب کلیم" کاکوئی نتیجہ نہ نکلا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی استعداد کے بارے میں وہ مایوس ہو گئے۔ انھوں نے آخری طورپر اپنا تجربہ ان الفاظ میں بیان کیا:
تیرے محیط میں کہیں گو ہر ِزندگی نہیں ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
یہی حال موجودہ زمانے کے اکثر مصلحین کا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے مسلمانوں کو اپنی کوششوں کا مرکز بنا یا۔ مگر ساری کوشش صرف کرنے کے بعد انہیں یہ تلخ احساس ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی گہری اصلاح قبول کرنے کا مادہ ہی نہیں ہے۔
موجودہ مسلمانوں کی استعداد کے بارے میں مذکورہ بالا اصحاب کا تجربہ بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کی تو جیہہ کے بارے میں ان کا بیان صحیح نہیں۔ یہ درست ہے کہ گنتی اور مقدار دونوں اعتبار سے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو اٹھانے کی بے حساب کوششیں کی گئیں مگر ان کا کوئی بھی قابلِ ذکر نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ مگر اس کی وجہ وہ نہیں جو اوپر نقل کیے ہوئے بیانات میں ملتی ہے۔
پانی اگر کسی گڑھے میں ٹھہر جائے تو کچھ دنوں کے بعد اس میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر جو پانی چشمہ یا دریا کی صورت میں رواں ہو، وہ ہمیشہ تازہ اور فرحت بخش بنا رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گڑھے کے پانی میں پرانے پانی کے ساتھ نیا پانی شامل ہو نا بند ہو جاتا ہے۔ جب کہ چشمہ یا دریا میں مسلسل پرانے پانی میں نیا پانی آکر شامل ہوتا رہتا ہے۔
اسی مثال سے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے معاملہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک جا مد نسلی گروہ بن کر ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں کثافت پیدا ہوگئی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ان کے اندر نیا خون New blood))شامل کیا جائے۔ ان کے پرانے پانی میں نیا پانی ملا کر انھیں رواں دریا بنا دیا جائے۔ اس کے بعد ان کی کثافت اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔
دعوت کا عمل اسی مقصد کو پورا کرتا ہے۔ دعوت کے ذریعہ دوسری قوموں سے نئے اور جاندار افراد اسلام قبول کر کے مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح بار بار نئے خون کے ملنے سے مسلمانوں میں زندگی باقی رہتی ہے۔ مگر صدیوں سے مسلمانوں میں دعوتی عمل بند ہے۔ ان کے پرانے خون میں نیا خون آکر شامل نہیں ہو رہا ہے۔ یہی اصل وجہ ہے اس صورت حال کی جس کاذکر اوپر چند اصحاب کے حوالے سے کیا گیا۔
دعوت الی اللہ کا کام مسلمانوں کے لیے بیک وقت دو فائدوں کا حامل ہے۔ ایک طرف وہ امت ِمحمدی کی حیثیت سے اپنی عمومی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ یہی عمل اس بات کا ضامن بھی ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایک زندہ اور طاقت ور قوم بنے رہیں۔