عظیم قربانی

اسلام کی تاریخ میں دو عظیم قربانی مقدر تھی۔ قربانی کے ان دونوں واقعات سے اسلام کی دوررس تاریخ بننے والی تھی۔ پہلی قربانی مکمل طور پر پیش آچکی ہے۔ دوسری قربانی کے پیش آنے کا تاریخ کو انتظار ہے۔ اس دوسری قربانی کا وقت آخری طور پر آگیا ہے۔ پہلی قربانی ایک پراسس (process) کی صورت میں پیش آچکی ہے۔ دوسری قربانی دوبارہ اسی طرح پراسس کی صورت میں پیش آئے گی، اور یہ پراسس عملاً شروع ہوچکا ہے۔

پہلی قربانی وہ تھی، جو ابراہیم، اسماعیل اور ہاجرہ کے ذریعے پیش آئی، اوراس کے انقلابی نتائج کا تجربہ ساری دنیا کو پیش آرہا ہے۔ اس عظیم قربانی کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ (37:107)۔ یعنی ہم نے اس کو ایک عظیم قربانی کے عوض چھڑا لیا۔

پیغمبر ابراہیم کا زمانہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔ اس وقت دنیا میں مطلق شہنشاہیت (despotism) کا دور تھا۔ کچھ سیاسی خاندانوں نے جابرانہ بادشاہت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے پاس نہایت طاقت ور فوجیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ اپنے خلاف بغاوت کو طاقت سے کچل دیتے تھے۔ اس دور میں دو بڑی بادشاہتیں قائم ہوگئی تھیں — بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) اورساسانی سلطنت (Sassanid Empire)۔

پیغمبر ابراہیم، ان کے بیٹے اسماعیل اور ان کی بیوی ہاجرہ کی غیر معمولی قربانی کے ذریعے عرب کے صحرا میں ایک قوم تیار ہوئی۔ اس قوم کو ایک مستشرق نے نرسری آف ہیروز کا نام دیا ہے۔ یہ قوم ابراہیم اور اسماعیل کی قربانی سے عرب میں بنی، پھر اس قوم کا ٹکراؤ مذکورہ دونوں سلطنتوں سے ہوا۔ اس سے پہلے خود ان دونوں سلطنتوں کا باہمی ٹکراؤ پیش آیا، جس کے نتیجے میں دونوں سلطنتیں کمزور ہوگئیں۔ اس واقعے کا ذکر قرآن کی سورہ الروم کی ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس عرب نسل کو،جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے، یہ موقع ملا کہ وہ دونوں سلطنتوں کو ایک کے بعد ایک شکست دے کر ان کا زور پوری طرح توڑ دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اب ان جابر سلطنتوں کا زورساری دنیا سے پوری طرح ختم ہوگیا، اور ساری دنیا میں آزادی کا دور آگیا۔

دوسرے دور کا انقلاب بالقوۃ طور پر (potentially) پیش آچکا ہے۔ اب اس پوٹنشل کو اویل (avail) کرنا ہے۔ یہ پوٹنشل موجودہ زمانے کاوہ انقلاب ہے،جس کو دورِ مواصلات (age of communication) کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کی بناپر پہلی بار تاریخ میں کسی مشن کی عالمی اشاعت کا موقع پیدا ہوا ہے۔اس دور کو قرآن کی اشاعت کے لیےبھر پور طور پر استعمال کرنا ہے۔ حدیث میں جس واقعے کو شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیا ہے، اس سے مراد یہی گلوبل دعوہ (global dawah) ہے۔ اسی گلوبل دعوہ کو موجودہ ایج آف کمیو نی کیشن میں آخری آسمانی کتاب قرآن کے حق میں استعمال کرنا ہوگا، اور پھر انسان کے اوپر آخری حجت تمام ہوجائے گی۔

جو لوگ اس امکان کو دریافت کریں، اور قربانی کی سطح پر اس کو بروئے کار لانے کی جدو جہد کریں، ان کے لیے تاریخ کا عظیم ترین انعام مقدر ہے۔ یہ واقعہ حدیث کے الفاظ میں اللہ کے نزدیک شہادتِ اعظم ہوگا، اور اس کے لیے اللہ کی طرف سے جزائے اعظم، یعنی اعلیٰ فردوس کا فیصلہ کیا جائے گا۔

دورِ آخر کی یہ شہادت اعظم کسی مسلح کار روائی کے ذریعے نہیں ہوگی۔ یہ مکمل طور پر ایک پرامن واقعہ ہوگا۔ اس واقعے کو بروئے کار لانے میں پیش کرنے والے جو قربانی پیش کریں گے، وہ گردن کاٹنا یا کٹوانا نہیں ہوگا، یہ تمام تر ایک پرامن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعے وجود میں آئے گا۔ یہ امنگوں کی قربانی (sacrifice of aspirations) کا معاملہ ہوگا۔

شہادتِ اعظم یا عالمی دعوت کا یہ واقعہ اس طرح ہوگا کہ اس کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو بھرپور طور پر وقف (dedicate) کریں گے، وہ اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیت کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنے کے بجائے دعوتی مشن کے لیے استعمال کریں گے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom