اسلامی نظام

انیسویں صدی کے نصف آخر میں کمیونسٹ نظریہ پھیلا۔ 1917 میں سوویت یونین میں پہلا کمیونسٹ نظام قائم ہوا۔ اب زیادہ منظم انداز میں اسٹیٹ کی سطح پر کمیونسٹ نظریہ کا پروپیگنڈا پوری طاقت سے ہونے لگا۔ اُس زمانہ میں کمیونزم کا نظریہ اتنا زیادہ پھیلا کہ پروفیسر گالبریتھ کے الفاظ میں : دنیا میں کبھی کسی نظریہ کو اتنا زیادہ فروغ حاصل نہیں ہوا جتنا فروغ کمیونزم کے نظریہ کو حاصل ہوا۔

اس فکری ماحول میں جس طرح دوسرے لوگ متاثر ہوئے اسی طرح مسلمانوں کے بہت سے اہل علم بھی متاثر ہوگئے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ڈاکٹر محمد اقبال، جمال عبد الناصر، وغیرہ۔ اس ماحول سے متاثر ہوکر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اسلام کو نظام کی اصطلاح میں بیان کرنا شروع کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام ایک مکمل اجتماعی نظام ہے اور مسلم ملّت کا یہ فرض ہے کہ وہ اس آئیڈیل انسانی نظام کو دنیا میں قائم کرے۔ ان لوگوں کے نزدیک جہاد کا مقصد یہ تھا کہ وہ انسانی ساخت کے نظاموں کو مغلوب کرے اور ان کی جگہ اسلام کے اعلیٰ نظام کا غلبہ قائم کردے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور کمیونزم کے رد عمل میں پیدا ہوا۔گویا کہ وہ کمیونزم کا اسلامی ایڈیشن تھا۔ قرآن میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ حتیٰ کہ پیغمبر ِ اسلام اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسا کوئی “معیاری نظام” موجود نہ تھا۔ اگر دین خداوندی کا مقصد دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانا ہو تو یہ نشانہ پوری تاریخ میں کبھی کسی پیغمبر کے زمانہ میں پورا نہیں ہوا۔ گویا نظری اور عملی دونوں اعتبار سے یہ تصور ایک غیر ثابت شدہ تصور ہے اور اسی کے ساتھ ناقابلِ عمل بھی۔

قرآن میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر انفرادی نوعیت کے ہیں۔ نہ صرف ایمان اور عملِ صالح بلکہ دوسرے معاملاتی احکام کی نوعیت بھی یہی ہے۔ مثلاً أَقِیمُوا الدِّینَ (42:13)، لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (57:25)، کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا (5:8)، وغیرہ بھی اصلاً انفرادی احکام ہیں، نہ کہ حکومت کے ذریعہ نافذ کیے جانے والے احکام۔

یہ صحیح ہے کہ قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد “معیار ی سماج”بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے:

It is just to maintain a necessary level of order in society.

اس نقطۂ نظر کا ایک ثبوت یہ ہے کہ معیاری سماج بنانے کے لیے جو نظام مطلوب ہے اس کے کئی انتہائی اہم اجزاء کے بارے میں اسلام میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ مثال کے طورپر یہ کہ خلیفہ (حاکم) کا تقرر کس طرح کیا جائے— پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، عمر بن عبد العزیز کو شامل کرتے ہوئے پانچ ایسے صدر ریاست ہوئے ہیں جن کو متفقہ طورپر خلیفۂ راشد کہا جاتا ہے۔ مگر ان پانچوں کے لیے تقرر کا طریقہ الگ الگ اختیار کیاگیا۔ اسی طرح شوریٰ کے بارہ میں کوئی متعین نظام یا ڈھانچہ اسلام کے دور اول میں موجود نہیں جو نمونہ کی حیثیت رکھتا ہو۔

موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔ خود پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں اس کے سابقہ نظام کو علیٰ حالہٖ فتح ِمکہ تک باقی رکھا۔

سماجی نظام کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اگر ایسا نظام عملاً موجود ہو جو اہلِ ایمان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے تو اُس سے ٹکراؤ نہیں کیا جائے گا۔ اُس کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت افراد اور ادارے کی سطح پر اسلام کی پیروی جاری رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف نے اپنے وقت کے مشرک بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس کے تحت پیغمبر یوسف توحید کے تقاضے پورے کرتے ہوئے رہ سکتے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کے اصحاب مکی دور کے آخر میں مکہ سے ہجرت کرکے حبش گئے۔ اس وقت وہاں ایک عیسائی بادشاہ کی حکومت تھی۔ اصحابِ رسول نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک عادل بادشاہ تھا اور اس نے لوگوں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔

یہ تصور کہ اسلام ایک معیاری سماجی نظام ہے اور اس کو دنیا میں عملاً قائم کرنا امت ِ مسلمہ پر فرض ہے، یہ نظریہ اسلام کے اصل مقصد کے خلاف ہے، وہ اسلام کے نشانہ کو بدل دینے والا ہے۔ اسلام کا اصل نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد خدا کی معرفت حاصل کرے۔ ہر فرد عبادت اور اخلاقیات میں ربّانی بنے۔ ہر فرد فلاحِ آخرت کو اپنا ہدف بنائے۔ مگر مذکورہ نظریہ آخرت کے بجائے دنیا کو آدمی کا نشانہ بنادیتا ہے۔ وہ تعمیر ِ آخرت کے بجائے تعمیر ِ دنیا کو اپنی منزل مقصود سمجھ لیتا ہے۔ اسلام ایک ربّانی مذہب ہے۔ مگر مذکورہ تصور اسلام کو ایک مادّی اور سیاسی مذہب میں تبدیل کردیتا ہے۔

اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی خدا کو دریافت کرے۔ وہ اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے (آل عمران، 3:79)۔ وہ اپنے روز مرہ کے واقعات میں حقیقتِ اعلیٰ کی جھلکیاں دیکھنے لگے۔ وہ دنیا کی زندگی کو فتنہ (آزمائش) اور آخرت کی زندگی کواصل مطلوب سمجھنے لگے۔ جو آدمی اس قسم کا ذہن رکھتا ہو اس کے لیے موجودہ دنیا میں معیاری قسم کا سماجی اور سیاسی نظام بنانا ایسا ہی ہے جیسے کہ ٹرین کا کوئی مسافر کسی پلیٹ فارم پر اپنی پسند کا گھر بنانے لگے۔

قرآن میں جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (37:61)۔ یعنی ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے کہا:اللَّہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الآخِرَہْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2961)۔ یعنی اے اللہ، زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔

اس طرح کی تعلیمات قرآن وحدیث میں کثرت سے آئی ہیں۔ ان تعلیمات سے ایک شخص کے اندر جو ذہن بنتا ہے، وہ مذکورہ نظامی تصور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکو رہ قسم کا نقطۂ نظر آدمی کو ایک قسم کا “اسلامی کمیونسٹ” بناتا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں اسلامی شخصیت کی تعمیر نہیں کرتا۔

اس فرق کو بتانے کے لیے ربانی اسلام اور سیاسی اسلام کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ربانی اسلام آدمی کے اندر معرفتِ خداوندی کا ذہن بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر احتسابِ خویش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ جنت کے تصور میں جینے لگتا ہے۔ اُس کے صبح وشام آخرت کی یادوں میں بَسر ہونے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کی کامیابی کو غیراہم اور آخرت کی کامیابی کو اہم سمجھنے لگتا ہے۔ وہ دنیا کو صرف بقدر ضرورت لینا چاہتا ہے اور آخرت کو بقدرِ شوق۔ اُس کی نظر میں دنیا کی کامیابی غیر اہم بن جاتی ہے اور آخرت کی کامیابی اہم۔

اس کے برعکس ذہن وہ ہے، جو سیاسی اسلام کے نظریہ کے تحت تیار ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے۔ سیاسی اور حکومتی چیزیں اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ سیاسی نوعیت کی چیزیں شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے لیے اولین بن جاتی ہیں اور ربانی نوعیت کی چیزیں عملاً ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ عبادت کے معاملہ میں وہ صرف اس کے ظاہری فارم پر قناعت کرلیتا ہے۔ اس کے اخلاق سیاسی مصلحتوں کے تابع ہوجاتے ہیں۔ تقویٰ اور خشیت اور اخبات اور تضرع جیسی چیزیں اس کے مزاج کے اعتبار سے اجنبی چیزیں بن جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی مجلس میں اگر آپ بیٹھیں تو آپ کو زیادہ تر سیاسی باتیں سننے کو ملیں گی، نہ کہ ربّانیت اور للِّٰہیت کی باتیں۔

اسلام کا اصل مقصد فرد بنانا ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی نظام بنانا۔ جس سماج میں افراد قابل لحاظ تعداد میں تیار ہوجائیں، وہاں یقینا سماجی سطح پر بھی اس کا ظہور ہوگا۔ مگر جہاں تک دعوتی نشانہ کا تعلق ہے، اسلام کا اصل نشانہ تعمیر ِ افراد ہے، نہ کہ سماجی اور حکومتی ڈھانچہ بنانا۔

اسلام کے فکری مطالعہ میں اس کو بطورِ اصول ماننا ضروری ہے۔ اگر اس کو نہ مانا جائے تو کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی بھی پیغمبر نے مکمل نظام کے احکام نہیں بتائے اور نہ کسی بھی پیغمبر نے عملی طورپر اس کا کوئی نمونہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں تمام پیغمبروں کی تحریک، نعوذ باللہ، فکری اور عملی دونوں اعتبار سے ناقص اور ناتمام نظر آتی ہے۔

قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تحریک کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایسے اعلیٰ افراد کو تیار کیا جائے جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ پیغمبروں کی تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج ہی لوگوں کے لیے ایک ایسی دنیا بنائی جائے جہاں وہ آخرت اور یوم الحساب سے پہلے ہی اپنے رہنے کے لیے ایک جنت کو حاصل کرسکیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom