امن کا مقصد

امن کا مقصد فوری فائدہ(immediate gain) حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ مواقع کو پیدا کرنا ہے۔ امن پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں امن کا ماحول موجود ہو، اس کو انسانی ترقی کے لیے استعمال کرنا، اور اگر امن کے حالات موجود نہ ہوں، تو یک طرفہ کوشش کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرنا، جو پرامن ماحول بنانے والے ہوں۔

مثلاً اگر کہیں دو قومی نظریہ کا کلچر پایا جاتا ہو، تو اس کو ختم کرنا، اور انسانی نظریے کو فروغ دینا۔ اگر کہیں مطالباتی سیاست کا رواج ہو، تو اس کو یک طرفہ اصلاح کے ذریعے ختم کرنا، اور جدید نظریے کے مطابق، پرامن اور صحت مند مسابقت کو رواج دینا، وغیرہ۔

جدید تہذیب کے تحت جو کلچر بنا ہے، وہ پرامن اور صحت مند مسابقت کا کلچر ہے۔ یہی کلچر اسلام میں بھی مطلوب ہے۔ مسلمانوں میں اگر کہیں اس کے برعکس کوئی کلچر پایا جاتا ہو، تو وہ قدیم قبائلی کلچر کی باقیات کے طور پر ہیں۔ دو قومی نظریہ بھی اسی قسم کی قبائلی باقیات کا نتیجہ ہے۔

امن پسندی کی دو نظریاتی بنیادیں ہیں۔ ایک ہے مبنی بر افادیت امن پسندی۔ مثلاً تجارتی فائدے کے لیے امن پسندی۔ یہ بھی ایک مطلوب امن پسندی ہے۔لیکن اس کا کوئی اخروی انعام نہیں۔ دوسرا ہے، مبنی بر دعوت امن پسندی۔یہ مبنی بر اصول امن پسندی ہے، اور اس کا انعام جنت ہے۔ مبنی بر دعوت امن پسندی آخرت کے انعام کے لیے ہوتی ہے، اور اس کا اجر اللہ کے یہاں بہت زیادہ ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ جو صلح حدیبیہ کی تھی، وہ مبنی بر دعوت امن پسندی تھی، اور یہ امن پسندی پیغمبرانہ اسوہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس نوعیت کی امن پسندی اس اعلیٰ اخلاقِ نبوی سے تعلق رکھتی ہے، جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں : وَإِنَّکَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیمٍ (68:4)۔ یعنی اور بیشک تم ایک اعلیٰ اخلاق پر ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom