سیلف گلوری
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ مستدرک الحاکم کے الفاظ یہ ہیں : عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا یَحْکِی عَنْ رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ:الْکِبْرِیَاءُ رِدَائِی، فَمَنْ نَازَعَنِی رِدَائِی قَصَمْتُہُ (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 203)۔ یعنی ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں کہ بڑائی میری چادر ہے، میری چادر کو جو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو توڑ دوں گا۔
قصم کا لفظی مطلب ہے توڑنا (to destroy)۔ یہ بات اس حدیث میں دنیا کے اعتبار سے ہے۔ یعنی جو آدمی ذاتی بڑائی (self glory) کے نشانے کو لے کر تحریک چلائے گا، وہ کبھی اپنے نشانے کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہوگا۔خدا اس کی کوششوں اور قربانیوں کو بے نتیجہ بنادے گا۔
بیسویں صدی اس معاملے کی ایک مثال ہے۔ بیسویں صدی میں مسلم دنیا کے اندربڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ ان شخصیتوں نے ہمالیائی تحریکیں چلائیں۔ مگر یہ تمام تحریکیں اپنے نشانے کو پانے میں پوری طرح ناکام رہیں۔ ان شخصیتوں کے حالات بتاتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا خاتمہ مایوسی (frustration) میں ہوا۔ یہ افراد طوفان کی طرح اٹھے، مگر وہ بلبلے کی طرح ختم ہوگئے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شخصیتوں کا مشترک کیس یہ تھا کہ انھوں نے سیاسی نشانہ (political goal) کو اپنا نشانہ بنایا۔ پولیٹکل نشانہ گویا اللہ کی عظمت کو چھیننے کے ہم معنی تھا۔ یہی واحد وجہ ہے کہ غیر معمولی مواقع ملنے کے باوجود یہ افراد اپنے مطلوب نشانے کو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیے۔ اہلِ ایمان کے لیے اس دنیا میں صرف ایک ہی صحیح نشانہ ہے، اور وہ دعوت کا نشانہ ہے۔ جو لوگ دعوت الی اللہ کو اپنا نشانہ بنائیں، وہ اللہ کی مدد سے یقینی طور پر کامیاب رہیں گے۔ یہ کامیابی خدائی معیار کے مطابق حاصل ہوگی، نہ کہ کسی انسان کے ذاتی معیار کے مطابق۔