دعوت کے کام میں استقامت
قرآن میں پیغمبر ِ اسلام کو خطاب کرتے ہوئے ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَہُمْ کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوعَدُونَ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَہَارٍ بَلَاغٌ فَہَلْ یُہْلَکُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ (46:35)۔ یعنی پس تم صبر کرو جس طرح ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیا۔ اور ان کے لیے جلدی نہ کرو جس دن یہ لوگ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ یہ پہنچا دینا ہے۔ پس وہی لوگ برباد ہوں گے جو نافرمانی کرنے والے ہیں۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک بے حد نازک کام ہے۔ اس کام میں داعی کو ہر قدم پر استقامت (perseverance) کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ استقامت سے مراد یہ نہیں ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان لڑائی ہو، اور آپ اس میں جم کر مقابلہ کریں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے صبر و برداشت کی استقامت۔ دعوت الی اللہ کا کام پورا کا پورا صبر و برداشت کا امتحان ہے— مدعو کی بے رخی کو برداشت کرنا، مدعو کی کڑوی باتوں کو برداشت کرنا، مدعو کی گالیوں کے جواب میں ان کے لیے دعائیں کرنا، وغیرہ۔
دعوت الی اللہ کا کام یک طرفہ صبر کا کام ہے۔ دعوتی اخلاق یہ ہے کہ مدعو آپ سے بد سلوکی کرے، اور آپ اس کے ساتھ اچھے اخلاق پر قائم رہیں۔ داعی کے اخلاق کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:أمَرَنی ربی أن أصَلَ مَنْ قَطَعَنی، وأعطی مَنْ حَرَمَنی، وأعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنی (جامع الاصول، حدیث نمبر 9317)۔ یعنی اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس سے جڑوں، جو مجھے کاٹے، اور میں اس کو عطا کروں، جو مجھے محروم کرے، اور اس کو معاف کردوں، جس نے مجھ پر ظلم کیا۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک ایسا کام ہے، جس میں مدعو کے مقابلے میں داعی کا کوئی حق نہیں ہوتا، اس کی صرف ذمے داریاں ہی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔مثلا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن یہ تھا کہ بت پرستی کے کلچر کو دنیا سے ختم کیا جائے، لیکن آپ نے پہلے لمبی مدت تک اس بت پرستی کے کلچر کو برداشت کیا، حتی کہ آپ نے اس کو بھی برداشت کیا کہ لوگ مقدس کعبہ کو عملاً بت پرستی کا مرکز بنادیں۔ آپ نے کعبہ میں بت پرستی کو برداشت کرتے ہوئے، اس کو آپ بطور موقع استعمال کریں۔ چنانچہ آپ نے کعبہ میں بت پرستی کے اجتماع کو اپنے لیے لمبی مدت تک بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔ کعبہ میں آپ نے بت پرستی کی سرگرمیوں کو دیکھا، اور اس پر کبھی احتجاج یا ٹکراؤ نہیں کیا، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں دعوتی تیاری کا پہلا کام یہ ہے کہ اہلِ ایمان اس حقیقت کو دریافت کریں کہ ان کی حیثیت داعی کی ہے، اور دوسری اقوام کی حیثیت مدعو کی۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ماضی کے اثر کے تحت اس حقیقت سے بے خبر ہوگئے ہیں۔ و ہ اپنے آپ کو ایک قوم اور دوسرے لوگوں کو دوسری قوم سمجھتے ہیں۔ یہ دو قومی نظریہ ہے، اور دو قومی نظریہ ایک سراسر غیر اسلامی تصور ہے۔ یہ ایک مبنی بر جہالت تصور ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک انقلابی پیغمبر تھے۔ مگر یہ انقلاب ایک پراسس کے روپ میں لمبی تاریخ کے دوران ظہور میں آیا، نہ کہ کسی اچانک اعلان کے ذریعے۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ ایک عالمی پیغمبر تھے۔ لیکن اس کا ظہور یکبارگی نہیں ہوا، بلکہ تاریخی پراسس کی صورت میں لمبی مدت کے دوران ہوا۔ اس تاریخی پراسس میں صرف امتِ محمدی شامل نہیں تھی، بلکہ دوسری اقوام نے بھی اس تاریخی پراسس میں حصہ لیا۔ اس نکتے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اکیسویں صدی میں امتِ محمدی کو اپنا فائنل رول ادا کرنا ہے۔ یہ فائنل رول ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فائنل رول وہی ہے جس کو قرآن میں اعلیٰ سطح پر تبیینِ حق (فصلت، 41:53) کہا گیا ہے، اور حدیث میں غالباًاسی دعوتی عمل کو شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کا درجہ دیا گیا ہے۔